پرانے شہر کے ساوتھ زون میں معمولی باتوں پرٹولیوں کے ایک دوسرے پر حملے

[]

حیدرآباد:مسلم معاشرہ کس راہ پرگامزن ہے؟ آئے دن معاشرہ میں قتل‘عام ہوتاجارہاہے۔معمولی باتوں پر آپس میں مسلمان ایک دوسرے کا قتل کررہے ہیں۔ٹولیوں کی شکل میں ایک دوسرے پر حملے کررہے ہیں جوایک معمول بن گیاہے۔

ذرائع کے بموجب شہر میں شائد کوئی ایسا دن نہیں گزرتاہے جہاں مسلم نوجوانوں نے ایک دوسرے پرقاتلانہ حملہ نہیں کیاہو۔ ایسا لگتا ہے کہ آیا حیدرآباد مسلم قتل گاہ بن چکا ہے؟۔پولیس کا رول صرف قتل کی واردات کے بعد ملزمین کوگرفتار کرنے یا ضابطہ کی کارروائی تک محدودہوکررہ ہوگیا۔ اس دوران ملزمین خودکو پولیس کے سپرد کرتے ہیں۔

معاشرہ میں جاہلیت عام ہوچکی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوچکے ہیں۔ بالخصوص حیدرآبادکے پرانے شہر میں نوجوانو ں کا راتوں میں جاگنا اور سڑکوں پر گھومنااور چبوتروں پر بیٹھ کرگپے مارنا عام ہوگیا ہے۔ نوجوان رات بھر سل فون پر چیاٹنگ کرتے رہتے ہیں۔

ٹولیوں کی شکل میں ہمارے نوجوان ایک دوسرے پر بناکوئی وجہ حملہ وار ہورہے ہیں۔ پرانے شہر کے ساوتھ زون میں ہر روز مختلف پولیس اسٹیشن کے حدود میں قاتلانہ حملہ کی وارداتیں ہورہی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ پہلے کی بہ نسبت عصری سہولتوں سے آراستہ ہونے کے باوجود آیا پولیس قتل‘اقدم قتل اور حملوں کو روکنے میں ناکام ہوچکی ہے؟۔

پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ نظم وضبط کوبرقراررکھے۔ مگر ایسا دکھائی دے رہاہے کہ پولیس کا عوام پر کنٹرول نہیں رہاہے۔ خودپولیس ملازمین اوعہدیدار گھنٹوں سل فون پر مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ عقبی راستوں سے ہوٹلس اورپان شاپس کا کاروبار جاری رہتا ہے۔

حالانکہ پولیس کی تلاشی مہم جاری رہتی ہے جس مقام پر تلاشی مہم چلائی جاتی ہے اس کے قریب ہی رات دیرگئے تک ہوٹل کھلی رہتی ہے۔ایسی تلاشی مہم کا کیا جوازہے؟ اوراہم بات یہ ہے کہ پولیس ملازمین کی اکثریت فٹ نس کے مسائل سے دوچار ہے۔بھاری تنخواہوں اورمراعات کے باوجود پولیس ملازمین صحت کے مسائل سے دوچارہورہے ہیں۔

ان حالات میں آیا پولیس ملازمین مستعدی کے ساتھ ملزمین کو پکڑسکتے ہیں؟۔ گزشتہ دور میں عصری ٹکنالوجی کے بغیرہی پولیس‘ جستجومحنت لگن اوراپنی صلاحیتوں کو بروے کارلاتے ہوئے ملزمین کا تعاقب کرکے انہیں پکڑلیتی تھی۔

آج کے دور میں سی سی ٹی وی کیمروں کے باوجود پولیس وہ کارہائے نمایاں انجام دینے میں ناکام رہی ہے۔پہلے قتل کی واردات سے قبل ہی پولیس ملزمین کوگرفتار کرلیتی تھی اور اب پولیس قتل کے بعدمقام واردات پر پہونچتی ہے جوتعجب خیزہے۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *