[]
حیدرآباد: حالیہ عرصہ تک ملک کی کئی ریاستوں میں حجاب کے استعمال پر اعتراض کیا جاتا رہا۔ دوسری طرف مسلم معاشرہ حجاب کے استعمال کے مسئلہ پر منقسم ہوچکا ہے۔
چندکا احساس ہے کہ شدت پسندی سے کام لینے سے ہمارا ہی نقصان ہوگا۔ہم تعلیم اور روزگار کے میدان میں پسماندہ ہوجائیں گے۔دوسری طرف ہمارے معاشرہ کا نصف حصہ ایسا بھی ہے جو احکامات الٰہی پر سمجھوتہ کرنے تیار نہیں ہے۔ وہ اپنے آپ کودنیاکے خاطر بے پردہ کرنا نہیں چاہتا۔
کرناٹک کے ضلع مانڈیا کی لڑکی مسکان خان جیسی بے شمار لڑکیاں حجاب اور برقعہ کو حصول تعلیم اور ترقی میں رکاوٹ نہیں سمجھتی ہیں گزشتہ دنوں حیدرآباد میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ رونماء ہواجہاں ایمانی جذبہ سے سرشار ایک مسلم لڑکی نے برقعہ اتار نے سے انکار کرتے ہوئے 30 ہزارروپے ماہانہ تنخواہ کی نوکری کوٹھکردیا۔
سوشل میڈیا پرایک ویڈیو وائرل ہواہے جس میں اُس لڑکی کویہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ اس نے ایک کمپنی میں جاب کے لئے انٹرویو دی تھی اورکمپنی نے اس لڑکی کومنتخب کرلیا تھا تاہم کمپنی نے نوکری کے لئے برقعہ اتار نے کی شرط رکھی گئی تاہم لڑکی نے اس شرط کوناقابل قبول قرار دیتے ہوئے اس نوکری کوٹھکرا دیا۔
لڑکی کے اس جذبہ ایمانی کوسراہا جارہا ہے۔ عوام کا ماننا ہے کہ جب تک ایسے حرارت ایمانی کے حامل لوگ رہیں گے دین اسلام پر آنچ نہیں آئے گی۔