حضرت خواجہ خواجگان خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ نے ہندستان میں صوفیہ کے چشتیہ سلسلے کی بنیاد رکھی : مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب

 

حیدرآباد 3جنوری (پریس ریلیز ) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے آج وہ اپنے خطاب میں بتلایا کہ سلطان الہند خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ کی ذات با برکات کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔اگر کہا جائے کہ وہ سر زمین ہند کی کلاہ افتخار کے سب سے زریں نگینے تھے تو بے جا نہ ہوگا۔ان کی شخصیت سرزمین ہند کے لیے ایک بڑی نعمت تھی۔ ہندستان کی تاریخ اورثقافت پر انھوں نے انمٹ نقوش چھوڑے اور انھوں نے ہندستان میں کئی ایسے کام کیے جو آج بھی ان کی یادگار ہیں مثال کے طور پرانھوں نے ہندستان میں صوفیہ کے چشتیہ سلسلے کی بنیاد رکھی۔ اس سلسلے نے ہندستان کے اندر گنگا جمنی تہذیب قائم کی اور بقائے باہم کی ہندستانی روایت کوفروغ دیا۔اسلامی مبلغین کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ وہ دیگر مذاہب کے مبلغین کی طرح تبلیغ اسلام کیلئے دنیوی اسباب حکومت کا سہارا یا مال و اسباب کے لانچ سے کام نہیں لیتے۔ بلکہ خدا کی ذات پر توکل اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو اپنا سرمایہ بناتے ہوئے دین کی دولت کو عام کرتے ہیں۔تاریخ شاہد ہے کہ دولت اور حکومت کے ذریعہ مرغوب اور متاثر ہونے والے موقعہ پاتے ہی بغاوت کر بیٹھے لیکن محبت اور حسن اخلاق سے متاثر ہونے والے تادم زیست وابستہ رہے۔ قرآن مجید ہمارے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ارشاد فرماتا ہے : میں ا اللہ تعالی ہی واضح فرما رہا ہے کہ یہ مخلوق خدا آپ کے اطراف جو جمع اور گرویدہ ہے۔یہ آپ کے حسن اخلاق کی وجہہ سے ہے۔ اس کے برخلاف آپ اگر سخت دل ہوتے تو آپ کے اطراف سے یہ سارے ۔ لوگ چھٹ جاتے۔ آپ کے اخلاق اور آپ کے پیام محبت کی ہے وجہہ سے 23 سال سے مختصر عرصہ میں ایک لاکھ سے زائد – جانثاروں کی جماعت تیار ہوگئی۔ جو تاریخ عالم کا ایک منفر دو نادر واقعہ ہے۔

اولیاء کرام حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی سنت پر عمل ہے پیرا ہو کر دین کو محبت کے ذریعہ اور اپنی خوش اخلاقی کے ذریعہ پھیلاتے رہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ دین کے بارے میں جبروا کراہ کا راستہ صحیح نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ -لا اکراه فی الدین)حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمہ کی ساری زندگی اس کا پر تو نظر آتی ہے۔ آپ نجیب الطرفین سادات سے ہیں۔ اس تو آتی بعض مصنفین نے آپ کا اسم گرامی حسن بتلایا ہے اور معین الدین آپ کا لقب ہے۔ بعض مصنفین معین الدین کو نام اور حالت حسن کو عرفیت بتلاتے ہیں۔سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کا اصل نام معین الدین حسن اور والد ماجد کا نام غیاث الدین حسن تھا۔ وہ ایران کے ایک شہر سجستان یا سیستان میں 537ہجری مطابق1143 میں پیدا ہوئے۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی عمر ابھی صرف پندرہ سال کی تھی کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔والد کی طرف سے میراث میں ایک باغ اور پن چکی ملی۔ حضرت اس باغ کی نگرانی کرتے اور پن چکی چلاتے، وہی ذریعہ معاش تھا، لیکن حضرت کو دست قدرت نے باغ کی باغبانی کے لئے نہیں بلکہ انسانوں کی گلہ بانی کے لئے بنایا تھا،اس لیے جلد ہی ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ حضرت اپنا سارا مال و اسباب اور اثاثہ فروخت کرکے حصول علم کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ سجستان سے نکل کر حضرت پہلے بخارا اور سمرقند گئے جہاں قرآن پاک حفظ کیا۔ اس کے بعد علوم ظاہری کی تحصیل میں لگ گئے۔

ظاہری تعلیم کی تکمیل کے بعد حضرت نے خواجہ عثمان ہرونی کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کی تھی، خواجہ عثمان بڑے پائے کے بزرگ تھے اور نیشاپور کے قریب ایک قصبہ ہرون ہے وہاں کے رہنے والے تھے۔

 

تصوف کی تاریخ میں بے شمار عظیم شخصیات پیدا ہوئیں اور تمام اسلامی دنیا میں تصوف کے اساطین کی اپنی اپنی شان رہی۔ لیکن حضرت خواجہ کا ان سب میں ایک خصوصی امتیاز ہے۔ حضرت خواجہ ایک ایسے وقت میں ہندوستان تشریف لائے جب اس ملک میں مسلمان برائے نام تھے اور ایک ایسے مقام پر فروکش ہوئے جو اس وقت شمالی ہندوستان کا مرکز تھا اور وہاں رہ کر امن و انسانیت، بھائی چارہ اور اخوت کا پیغام دیا۔ اونچ نیچ اور طبقاتی نظام میں جکڑے ہوئے ہندوستان کو برابری کا درس دیا اور بتایا کہ انسان اپنی پیدائش سے چھوٹا بڑا نہیں ہوتا بلکہ عمل سے چھوٹا بڑا ہوتا ہے۔ سارے انسان برابر ہیں اور سب کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔

حضرت خواجہ نے انسان کو اپنے ہی جیسے انسانوں کی غلامی سے آزاد کرکے اپنے مالک کا غلام بننے کا پیغام دیا۔ خدا اور بندے کے درمیان سے انسانوں کے واسطے ختم کر کے ہر انسان کا تعلق براہ راست اس کے مالک سے قائم کرنے کی دعوت دی۔

چونکہ حضرت خواجہ نے یہ عظیم پیغام اس سرزمین میں پہلی مرتبہ سنایا اس لئے امت نے ان کو بڑے عظیم خطابات دئیے۔ جیسے نائب الرسول فی الہند اور وارث النبی فی الہند وغیرہ۔

حضرت خواجہ کے آستانے پر جس طرح عوام جاتے ہیں، سلاطین و امراء کی عقیدت بھی ان کے ساتھ کم نہ تھی ہر زمانے میں بادشاہان وقت نے حضرت خواجہ سے اپنی وابستگی اور عقیدت کا اظہار کیا۔ سلطان شمس الدین التمش جو حضرت خواجہ کے ہم عصر تھے، اس کو بھی حضرت خواجہ سے بڑی عقیدت تھی اور حضرت خواجہ کے خلیفہ اجل خواجہ قطب الدین بختیار کاکی سے اپنے تعلق کا اظہار مختلف مواقع پر کرتے رہتے تھے۔ مختلف تذکروں میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ مشائخ چشت کے ساتھ ان کے اس تعلق کی وجہ سے ہی حضرت خواجہ بھی ان کو منظور نظر رکھتے تھے۔ خزینتہ الاصفیاء میں لکھا ہے کہ ”سلطان شمس الدین التمش حضرت خواجہ معین الدین سجزی کے محبوب اور منظور نظر تھے“۔

شہنشاہ اکبر کو حضرت خواجہ سے بڑی عقیدت تھی۔ شہزادہ سلیم کی پیدائش کی خوشی میں آگرہ سے اجمیر تک پیدل سفر کیا۔ سارے راستہ خوب خیرات کی اور اشرفیاں لٹائیں۔ اجمیر میں بھی شاہانہ طریقہ پر خیرات تقسیم کرائی۔ ایک مسجد بنوائی اور ضروریات کے لئے کئی دیگر عمارتیں بھی تعمیر کروائیں۔ مراد کی پیدائش پر بھی اکبر نے اجمیر شریف کی زیارت کی۔ اور بھی مختلف مواقع پر اس نے درگاہ میں حاضری دی۔ بلکہ جب بھی اکبر کو اجمیر جانے کا موقعہمل جاتا وہ ضرور جاتا۔ ابوالفضل نے اکبر نامہ میں اور ملا عبدالقادر بدایونی نے منتخب التواریخ میں ایسے متعدد مواقع کا ذکر کیا ہے جب اکبر نے حضرت خواجہ کے دربار میں حاضری دی۔ اجمیر کی بڑی دیغ جس میں سو من چاول پک سکتے ہیں، وہ بھی اکبر نے ہی درگاہ میں چڑھائی تھی۔

 

جہانگیر کو بھی حضرت خواجہ سے بڑی عقیدت تھی۔ اپنے آٹھویں سال جلول میں جہانگیر خواجہ کی زیارت کے لئے اجمیر گیا۔ جہانگیر نے اپنے اس سفر کا حال خود لکھا ہے:

 

”دوشنبہ کے روز ۵ شوال مطابق ۶۲ شعبان کو اجمیر میں داخل ہونے کی ساعت قرار پائی۔ اس روز صبح کو میں شہر کی طرف بڑھا۔ جب قلعہ اور حضرت خواجہ بزرگ کا روضہ نظر آنے لگا تو ایک کوس پہلے ہی میں پاپیادہ ہو گیا اور راستہ کے دونوں جانب معتمدوں کو مقرر کیا کہ فقرا اور ضرورتمندوں کو روپیہ دیتے ہوئے آگے بڑھے اور جب دن کی چار گھڑیاں گذر چکی تو شہر میں داخل ہوا اور پانچویں گھڑی میں روضہ مبارک کی زیارت کا شرف حاصل ہوا اور پھر اپنی قیام گاہ پر واپس آیا۔ دوسرے دن میں نے حکم دیا کہ شہر کے ہر چھوٹے بڑے شخص اور ہر راہ گیر کو اچھی طرح انعام دے کر خوش کیا جائے۔

 

جہانگیر نے اپنے آٹھویں سال جلوس میں درگاہ کو ایک دیگ دی جو آگرہ میں بنی تھی۔ پھر اجمیر جا کر اس میں کھانا پکوایا اور ۵ ہزار لوگوں کو اس میں کھانا پکوا کر کھلوایا۔ اب یہ چھوٹی دیگ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں اسّی من چاول پک سکتے ہیں۔

 

شاہجہاں نے بھی حضرت خواجہ کے آستانے پر کئی بار حاضری دی۔ روضہ کے پاس سنگ مرمر کی مسجد اسی کی بنوائی ہوئی ہے۔ مسجد کا طول ۷۹ گز اور عرض ۷۲ گز ہے۔ اس میں پانچ دروازے ہیں۔ ابو طالب کلیم نے اس مصرعہ سے تاریخ نکالی تھی:

 

کعبہ حاجات دنیامسجد شاہجہاں

 

شہزادی جہاں آرا نے اپنی کتاب مونس الارواح میں لکھا ہے کہ یہ مسجد دو لاکھ چالیس ہزار روپیہ میں تعمیر ہوئی۔ خود جہاں آرا بیگم کو بھی حضرت خواجہ صاحب سے والہانہ عقیدت تھی۔ درگاہ کا بیگمی دالان اس نے ۲۵۰۱ میں بنوایا تھا۔ اس کی چھت اور ستون سنگ مرمر کے ہیں اور فرش سنگ افشاں ابری اور طلائی کا ہے۔ اس عقیدت کی بنا پر خواجگان چشت پر ایک کتاب مونس الارواح تصنیف کی۔

 

بعد کے سلاطین و حکمراں بھی حضرت خواجہ کے ساتھ ایسی عقیدت و احترام کا اظہار کرتے تھے۔ عالمگیر جو اپنے مذہبی تقشف کے لئے مشہور ہے لیکن حضرت خواجہ سے عقیدت کا یہ عالم تھا کہ پا پیادہ حاضری کو سعادت سمجھتا تھا۔

 

حضرت خواجہ کو آج بھی وہی مرکزیت حاصل ہے، آج بھی عوام اور حکمران، امیر و غریب، بڑے اور چھوٹے ہر طبقے کے لوگ لاکھوں کی تعداد میں ہر سال حضرت خواجہ کی زیارت کے لئے آتے ہیں۔

 

اللہ رب العزت نے حضرت خواجہ کو انسانوں کی گلہ بانی کا وہ عظیم کام سونپا تھا جس کے لئے انبیاء کرام مبعوث کئے گئے اور حضرت خواجہ کے لئے ہندستان کی سرزمین کو منتخب فرمایا۔ یہ ایک طرح سے اذن الٰہی تھا کہ وہ ایک ایسے وقت میں ہندوستان کی سرزمین میں تشریف لائے۔ جب یہاں کے لوگ اپنی حقیقت بھی بھولے ہوئے تھے اور اپنے مالک و مولیٰ کی حقیقت سے بھی نا آشنا تھے، مذہبی زندگی اندھ وشواشوں اور بدعقیدگی کے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی تھی اور دولت مند طبقہ غریبوں کا استحصال کر رہا تھا، خود ساختہ مذہبی رہنماؤں نے اپنی دنیا کی غرض سے سیدھے سادے عوام کو بے وقوف بنا رکھا تھا۔ہر انسان ایک طرف انسان سماج کی ناروا بندشوں میں جکڑا ہوا تھا۔ دوسری طرف بدعقیدگیوں کی دلدل میں اس کی روح قید تھی۔گویا انسان جسمانی اور روحانی ہر طرح کی غلامی میں بندھا ہوا تھا۔

 

 

 

 

صوفیہ کرام کی عوام سے محبت اور غریبوں سے الفت کا اصل سبب ان کی انسانیت دوستی تھی۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے۔ اس لئے عوام کی خدمت کو اپنے سلوک اور اپنے مذہب سے الگ نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے لئے خدا تک رسائی کا ذریعہ ایک طرف ان کی ذاتی عبادت و ریاضت تھی تو دوسری طرف عوام سے محبت اور خدمت خلق اس کا ذریعہ تھی۔ وہ خود کو عوام اور مساکین کے طبقے ہی سے متعلق سمجھتے تھے اور عوام کے تمام مسائل سے براہ راست دلچسپی رکھتے تھے۔ ان کی خانقاہوں میں جو بھی غریب نادار، مصیبت زدہ انسان پہنچ جاتا اس کی خبر گیری کرتے اور اس کی ضروریات کو پورا کرتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان درویشوں کو ان کی زندگی میں جو مقام حاصل تھا وہ ان کے معاصر حکمرانوں کو بھی نہیں تھا اور ان کی وفات کے بعد ان سے عوام کی جیسی عقیدت اور وابستگی ہے، اس کی مثال بہت مشکل ہے۔

 

صوفیہ کرام کی یہ غریب پروری اور خدمت خلق ہندوستان میں بطور خاص نمایاں نظر آتی ہے۔ اس کی مختلف وجوہات بھی ہیں جن کے ذکر کی یہاں چنداں ضرورت نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ صوفیہ کرام نے ہندوستان کے کثیر مذہبی معاشرہ میں ایک ایسی تہذیبی روایت کو فروغ دیا جس میں مذہب و ملت اور ذات پات کی تفریق کے بغیر ہر ایک کو یکساں مواقع فراہم ہوں، صوفیہ کرام نے خود کوشش اور محنت سے اس کا عملی نمونہ پیش کیا، معاشرے کے دبے کچلے اور کمزور افراد کے ساتھ خصوصی تعلق اور محبت کا برتاؤ کیا اور ان کی خدمت کو اپنا شیوہ بنایا۔

 

ہندوستان میں صوفیہ کرام کے اس رویے اور روایت کے بانی تھے حضرت خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ۔ اس لئے ان کے القاب و خطابات میں ایک مشہور خطاب ایک ”خواجہ غریب نواز ہے“ حضرت خواجہ نے عبادت و اطاعت الٰہی کو براہ راست خدمت خلق سے جوڑ دیا۔ ان کی نظر میں عبادت یہ ہے کہ بندہ اپنی رات کی تنہائی میں اپنی جبین خدا وند قدوس کی بارگاہ میں جھکا دے اور اس کے عائد کردہ فرائض کو انجام دے اور اطاعت یہ ہے کہ اپنے دن کی روشنی میں بندگان خدا کی خبر گیری کے لیے ہمہ وقت مستعد اور تیار رہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کرانسان آخرت میں کامیاب ہو سکتا ہے اور جہنم کے عذاب سے بچ سکتا ہے۔ حضرت خواجہ فرماتے تھے ”جو شخص قیامت کے عذاب سے بچنا چاہتا ہے وہ اللہ کی اطاعت کرے کیونکہ اللہ کے نزدیک فرمانبرداری سے بڑھ کر کوئی اور اطاعت نہیں“۔ میں نے عرض کیا ”کس قسم کی اطاعت؟“ فرمایا ”عاجزوں کی فریاد رسی، حاجت مندوں کی حاجت روائی، بھوکوں کو کھانا کھلانا، اس سے بڑھ کر کوئی نیک کام نہیں“۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *