[]
نئی دہلی : بلقیس بانو کیس مت میں جن ملزمین کو رہا کر دیا گیا تھا آج مرکزی حکومت اور گجرات حکومت نے سپریم کورٹ میں اپنی دلیلیں پیش کی ہیں۔ گجرات حکومت کی جانب سے ایڈیشنل سولیسٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ قصورواروں کی رہائی اصولوں کے مطابق عمل میں آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سزا سنائے جانے کے وقت عدالت کو بھی معلوم تھا کہ 14 سال بعد چھوٹ دی جا سکتی ہے۔ عدالت نے ایسی سزا نہیں دی تھی کہ قصورواروں کو 30 سال بعد ہی چھوٹ دی جائے گی۔ مرکزی حکومت اور گجرات حکومت کی طرف سے پیش ایڈیشنل سولیسیٹر نے جسٹس ناگرتنا اور جسٹس اجل بھویان کی بنچ کو بتایا کہ عدالت بھی مانتی ہے کہ جرم اتنا بہیمانہ نہیں تھا، جس پر جسٹس ناگر تنا نے کہا کہ جرم بہیمانہ تھا جس پر ایڈیشنل سولیسٹر جنرل نے کہا کہ جرم بہیمانہ ہے لیکن قصورواروں کو 14 سال سے زیادہ وقت جیل میں گزارنے کے بعد سدھرنے کا موقع فراہم کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ قانون یہ نہیں کہتا کہ سبھی کو سزا دی جائے اور پھانسی دی جائے، بلکہ یہ کہتا ہے کہ لوگوں کو سدھرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران گجرات حکومت سے پوچھا کہ سزا میں چھوٹ کی پالیسی گنے چنے لوگوں کے لیے ہی کیوں ہے؟ عدالت نے یہ بھی کہا کہ سدھرنے کا موقع صرف چند قیدیوں کو ہی کیوں دیا گیا؟ یہ موقع تو ہر قیدی کو دیا جانا چاہیے تھا۔
واضح رہے کہ بلقیس کے قصورواروں کو گجرات حکومت نے رہا کر دیا تھا۔ ایڈیشنل سولیسٹر جنرل نے اس تعلق سے سپریم کورٹ کو بتایا کہ گزشتہ سال مئی میں عدالت عظمی کی ہی ایک فیصلے کی بنیاد پر قصورواروں کی رہائی عمل میں آئی۔