سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے غلط استعمال اور مضر اثرات پر قابو پانے کے لیے نئے قوانین کا نفاذ
نئی دہلی۔سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے غلط استعمال اور اس کے مضر اثرات کے پیش نظر مرکزی حکومت جلد ہی اس پر قابو پانے کے لیے نئے قوانین لا سکتی ہے۔ ان قوانین کے تحت 18 سال سے کم عمر کے بچوں کو سوشل میڈیا اکاؤنٹ کھولنے کے لیے اپنے والدین کی اجازت لینا لازمی ہوگا۔ یہ اصول ڈیٹا کے تحفظ کے نئے مسودے میں شامل ہے جس کے مطابق کمپنیاں بچوں کا ڈیٹا والدین کی رضامندی کے بغیر استعمال یا ذخیرہ نہیں کر سکیں گی۔
مرکز نے جمعہ کو ان قوانین کا مسودہ جاری کیا اور عوام سے اعتراضات اور تجاویز بھیجنے کی درخواست کی ہے۔ الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت نے ایک نوٹیفکیشن میں کہا کہ لوگوں کی رائے mygov.in پر پیش کی جا سکتی ہے۔ ان قوانین کے مسودہ پر 18 فروری کے بعد غور کیا جائے گا اور اس میں ممکنہ تبدیلیاں بھی کی جا سکتی ہیں۔ یہ اقدام بچوں کی آن لائن حفاظت کے لیے ایک اہم قدم قرار دیا گیا ہے۔
مرکزی حکومت کے مسودے کے مطابق ڈیٹا کے لیے ذمہ دار کمپنیوں کو یہ جانچنا ہوگا کہ بچے کا سرپرست ہونے کا دعویٰ کرنے والا شخص بالغ ہے اور اگر کسی قانون کی تعمیل ضروری ہو تو اس کی شناخت کی جا سکے۔ ڈیٹا کمپنیاں صارفین کا ڈیٹا صرف اس وقت تک محفوظ رکھ سکیں گی جب تک کہ ان کے پاس اس کی منظوری ہو اور بعد میں انہیں یہ ڈیٹا حذف کرنا ہوگا۔
ای کامرس، سوشل میڈیا، اور گیمنگ پلیٹ فارمس کو ان کمپنیوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جنہیں ڈیٹا کے تحفظ کے ان اصولوں کی پابندی کرنا ہوگی۔ صارفین کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ پوچھ سکیں کہ ان کا ڈیٹا کیوں اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ ڈیٹا کی خلاف ورزی کی صورت میں کمپنیوں پر 250 کروڑ روپے تک کا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔
قوانین کے مطابق کمپنیاں لوگوں کا ذاتی ڈیٹا ہندوستان سے باہر منتقل نہیں کر سکیں گیسوائے ان چند معاملات کے جہاں قانونی اجازت موجود ہو۔ ڈیٹا پروسیسنگ کے تمام زمرے عوامی طور پر ظاہر کیے جائیں گے اور پروسیسنگ کا مقصد واضح طور پر بیان کرنا ہوگا۔
یہ قوانین ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ 2023 کا حصہ ہیں جسے گزشتہ سال پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا۔کہاجارہا ہے کہ یہ قوانین ڈیجیٹل دنیا میں پرائیویسی کے تحفظ اور صارفین کی حفاظت کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوں گے۔