حیدرآباد (منصف نیوز بیورو) چیف منسٹر اے ریونت ریڈی نے محکمہ آبرسانی کے عہدیداروں کو ہدایت دی کہ وہ اگلے 25 سالوں کی ضروریات کو نظر میں رکھتے ہوئے حیدرآباد شہر میں پینے کے پانی کی فراہمی کا منصوبہ تیار کریں۔
انہوں نے ہدایت دی کہ مستقبل کا یہ منصوبہ گریٹر حیدرآباد کی توسیع کو مدنظر رکھتے ہوئے سال 2050 تک بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل ہونا چاہئیے۔ چیف منسٹر نے کہا کہ ہر گھر کے لئیے پینے کے پانی کے ساتھ سیوریج پلان بھی بنانے کی ضرورت ہے۔
چیف منسٹر نے آج حیدرآباد واٹرسپلائی اینڈ سیوریج بورڈ کے حکام کے ساتھ انٹیگریٹڈ کمانڈ کنٹرول سنٹر میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد کیا۔ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے بعد بورڈ کی یہ پہلی میٹنگ ہے۔ چیف منسٹر اے ریونت ریڈی نے بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے اس میٹنگ کی صدارت کی۔
اجلاس میں چیف منسٹر کے مشیر ویم نریندر ریڈی، چیف سکریٹری شانتی کماری، پرنسپل سکریٹری بلدی نظم نسق و شہری ترقیات داناکشور، اسپیشل پرنسپل سکریٹری رام کرشنا راؤ، پرنسپل سکریٹری محکمہ آبپاشی راہول بوجا، ایچ ایم ڈبلیو ایس ایس بی کے ایم ڈی اشوک ریڈی، جی ایچ ایم سی کمشنر ایلم برتی،چیف منسٹر کے اسپیشل سکریٹری اجیت ریڈی نے شرکت کی۔
اجلاس کے دوران عہدیداروں نے چیف منسٹر کو بتایا کہ فی الحال حیدرآباد شہر کی آبادی کی ضرورت کے لحاظ سے پینے کا پانی فراہم کیا جارہا ہے،عہدیداروں نے کہا شہر کی آبی ضروریات کی تکمیل کے لئیے جملہ 9800 کلومیٹر پینے کے پانی کی تقسیم کا نیٹ ورک موجود ہے جس کے ذریعہ 13.79 لاکھ کنکشنس سے پینے کا پانی فراہم کیا جارہا ہے۔
شہر کو فی الحال منجیرا، سنگور، گوداوری اور کرشنا سے پانی فراہم کیا جا رہا ہے اور گوداوری مرحلہ دوم کے ذریعہ زیادہ پانی لانے اور عثمان ساگر اور حمایت ساگر کو پینے کے پانی کی فراہمی کے لئے بیلنسنگ پروجیکٹ کے طور پر تیار کیا گیا ہے۔ اجلاس میں اس بات پر تبادلہ خیال کیا گیا کہ آیا حیدرآباد کی پینے کے پانی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے گوداوری مرحلہ دوم پروجیکٹ کے لیے ملنا ساگر یا کونڈاپوچما ساگر سے پانی حاصل کرنا چاہیے؟۔
اجلاس میں کنسلٹنسی ایجنسیوں کے ذریعہ دی گئی رپورٹ کے ساتھ پانی کی دستیابی اورلفٹ کی لاگت کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ فیصلہ کیا گیا کہ پینے کے پانی کی فراہمی کا منصوبہ ملنا ساگر سے شروع کیا جائے۔چیف منسٹر نے پہلے تجویز کردہ 15 ٹی ایم سی کے بجائے، شہر کی ضروریات کے لئے 20 ٹی ایم سی پانی لانے کی منظوری دی۔ اس موقع پر ایم ڈی اشوک ریڈی نے پاور پوائنٹ پریزنٹیشن کے ذریعہ حیدرآباد واٹر بورڈ کی آمدنی اور اخراجات کو پیش کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ واٹر بورڈ کی آمدنی ملازمین کی تنخواہوں اور پینے کے پانی کی سربراہی کے اخراجات کے لیے کافی ہے۔
انہوں نے کہا مختلف سرکاری محکموں اور دفاتر سے تقریباً 4,300 کروڑ روپے کے واجبات وصول طلب ہیں، واٹر بورڈ پر بجلی کے بلوں کے لیے تقریباً 5,500 کروڑ روپے واجب الادا ہیں جبکہ ماضی میں 1,847 کروڑ روپے واجب الادا تھے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ بورڈ کو 8,800 کروڑ روپے کا ریونیو خسارہ کا سامنا ہے۔ چیف منسٹر نے ہدایت دی کی کہ محکمہ مال کے ساتھ مل کر ایک ہنگامی ایکشن پلان تیار کیا جائے تاکہ آمدنی کے غیر ضروری اخراجات پر قابو پایا جا سکے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ بورڈ اپنی آمدنی بڑھانے کے طریقہ تلاش کرے اور اس پر عمل کرنے کے طریقہ کار کا مطالعہ کرے۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ شہر میں پہلے ہی ہر ماہ 20 ہزار لیٹر پانی مفت سربراہ کیا جا رہا ہے اس لئے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ دیگر کنکشنز سے بلز کے واجبات باقاعدگی سے وصول کیے جائیں۔ چیف منسٹر نے تجویز پیش کی کہ واٹربورڈ نئے پروجیکٹس کے لئے ضروری فنڈز فراہم کرے اور کم سود پر قرض حاصل کرنے کے لئے متبادل کا انتخاب کرے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے لئے پرو جیکٹ ڈی پی آرز تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
عہدیداروں نے چیف منسٹرپر واضح کیا کہ منجیرا سے شہر کے کئی علاقوں کو 1965 سے پانی سپلائی کرنے والی پائپ لائنیں پرانی ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے اگر مرمت کرائی جائے تو تقریباً 10 سے 15 دن تک پانی کی سپلائی بند رہتی ہے۔ چیف منسٹر نے اس پرانی لائن کے متبادل کے طور پر ایک اور ایڈوانس لائن کی تعمیر کا نیا منصوبہ شروع کرنے کا حکم دیا۔ چیف منسٹر نے ایک پروجیکٹ رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت دی تاکہ ضرورت پڑنے پر مرکزی حکومت کے ذریعہ نافذ کئے جا رہے جل جیون مشن کے ذریعہ فنڈز حاصل کئے جاسکیں۔