اقوام متحدہ: اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) نے سال 2024 کو تنازعات کا شکار بچوں کے لیے تاریخ کا بدترین سال قرار دے دیا۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یونیسیف کے تازہ ترین دستیاب اعداد و شمار اور موجودہ عالمی رجحانات کے جائزے کے مطابق 2024 میں دنیا بھر میں بچوں پر مسلح تنازعات کے اثرات تباہ کن اور ممکنہ طور پر ریکارڈ سطح پر پہنچ گئے۔
ایک اندازے کے مطابق پہلے سے کہیں زیادہ بچے یا تو جنگ زدہ علاقوں میں رہ رہے ہیں یا تنازعات اور تشدد کی وجہ سے زبردستی بے گھر ہو رہے ہیں۔یونیسیف نے ہفتے کو کہا ہے کہ تنازعات سے متاثرہ بچوں کی ریکارڈ تعداد کو حقوق کی پامالی کا سامنا ہے، جن میں ہلاک اور زخمی ہونا، اسکول نہ جانا، زندگی بچانے والی ویکسینز سے محروم ہونا اور شدید غذائی قلت کا شکار ہونا شامل ہیں۔
اس تعداد کے صرف بڑھنے کا خدشہ ہے، تنازعات کی وجہ سے دنیا بھر میں انسانی ضروریات کا تقریباً 80 فیصد حصہ متاثر ہوتا ہے، جس کی وجہ سے صاف پانی، خوراک اور صحت کی دیکھ بھال سمیت ضروری اشیا تک رسائی متاثر ہوتی ہے۔عالمی سطح پر 47کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ بچے (ہر 6 میں سے ایک سے زیادہ) اب تنازعات سے متاثرہ علاقوں میں رہ رہے ہیں، دنیا کو دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے زیادہ تنازعات کا سامنا ہے۔
جنگ زدہ علاقوں میں رہنے والے بچوں کی تعداد 1990 کی دہائی میں تقریباً 10 فیصد تھی جو بڑھ کر آج تقریباً 19 فیصد ہو گئی ہے۔2023 کے اختتام تک تنازعات اور تشدد کی وجہ سے 4 کروڑ 72 لاکھ بچے بے گھر ہو چکے تھے جبکہ 2024 کے رجحانات ہیٹی، لبنان، میانمار، ریاست فلسطین اور سوڈان میں تنازعات میں شدت کے باعث اضافی نقل مکانی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
دنیا کی کل آبادی میں بچوں کی تعداد 30 فیصد ہے تاہم پناہ گزینوں کی آبادی کا اوسطاً 40 فیصد اور اندرون ملک بے گھر ہونے والے افراد کی تقریباً 49 فیصد آبادی بچوں پر مشتمل ہے، تنازعات سے متاثرہ ممالک میں اوسطاً ایک تہائی سے زیادہ آبادی (34.8 فیصد) غریب ہے جبکہ تنازعات سے پاک ممالک میں یہ شرح صرف 10 فیصد ہے۔
یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کیتھرین رسل کا کہنا ہے کہ متاثرہ بچوں کی تعداد اور ان کی زندگیوں پر پڑنے والے اثرات کے لحاظ سے 2024 یونیسیف کی تاریخ میں تنازعات کا شکار بچوں کے لیے بدترین سالوں میں سے ایک رہا ہے۔