خون دینے والے مذہب نہیں دیکھتے

حیدرآباد ۔ انسانیت کا سب سے بڑا جذبہ کسی بھی قسم کی تفریق کو ختم کر دیتا ہے۔ یہی جذبہ ہمیں اس وقت دیکھنے کو ملتا ہے جب کسی کی زندگی بچانے کے لیے خون کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ایسی صورتحال میں انسان نہ ذات دیکھتا ہے، نہ مذہب، نہ رنگ اور نہ زبان بلکہ صرف ایک انسان کی جان بچانے کا مقصد پیش نظر ہوتا ہے۔

 

ہاسپٹلس اور بلڈ بینکس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جب کسی مریض کو خون کی ضرورت ہوتی ہے تو لوگ بلا جھجک خون دینے کے لیے آگے آتے ہیں۔ ان کے دل میں ایک ہی بات ہوتی ہے کہ کسی کی زندگی بچائی جائے، چاہے وہ کسی بھی مذہب یا فرقے سے تعلق رکھتا ہو۔

 

ہندوستان جیسے ملک میں جہاں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں بلڈ ڈونیشن ایک ایسی مثال ہے جو یہ ثابت کرتی ہے کہ انسانیت مذہب سے بڑی ہے۔ کسی ہندو مریض کو مسلمان ڈونر خون دیتا ہے، اور کسی مسلم مریض کو ہندو یا سکھ خون عطیہ کرتا ہے۔

 

زلزلے، سیلاب، اور دیگر قدرتی آفات کے دوران بھی ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ ایک دوسرے کی مدد کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ یہاں کسی کے مذہب یا ذات کو اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ صرف انسانیت کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔

 

خون کا رنگ ہر انسان میں ایک جیسا ہوتا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ انسانیت ایک ہے اور ہم سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور انسانیت اہم ہے۔  بلڈ ڈونیشن جیسے عمل سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جب لوگ خون دیتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں اور فرقہ واریت کی دیواریں گر جاتی ہیں۔

 

خون دینے کا عمل محبت اور اخوت کو فروغ دیتا ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ انسانیت کے جذبات کسی بھی مذہبی تفریق سے بالاتر ہیں۔ ایسے عمل معاشرے میں شعور پیدا کرتے ہیں کہ انسانیت سب سے بڑی حقیقت ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کے لیے تیار رہتے ہیں۔ جان بچانے کے لیے خون دینے والے لوگ مذہب نہیں دیکھتے، کیونکہ ان کے نزدیک انسانیت سب سے مقدم ہے۔

 

یہ جذبہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ انسان کو ہمیشہ انسانیت کے اصولوں پر عمل کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کی مدد کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ایسے عمل دنیا میں امن، محبت، اور بھائی چارے کی فضا کو قائم رکھتے ہیں اور ہمیں اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ ہم سب ایک ہیں۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *