عدالت نے طلاق کی عرضی کو منظوری دیتے ہوئے کہا: “کئی بار جبکہ بیوی خود بھی گھر میں نہیں ہے، رشتے داروں کی وہاں موجودگی سے عرضی دہندہ کی زندگی پر گہرا اثر پڑا ہوگا”۔
کلکتہ ہائی کورٹ نے اپنے ایک اہم فیصلہ میں بیٹی کی سسرال میں اس کے گھر والوں اور دوستوں کے طویل وقت تک (بغیراجازت) رہ جانے کو بے رحمی قرار دیا ہے۔ ہائی کورٹ نے اسی بنیاد پر 19 دسمبر کو ایک شخص کو طلاق کی منظوری دے دی۔ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ شوہر کی مرضی کے خلاف بیوی کے دوستوں یا رشتے داروں کا طویل وقت تک اس کے گھر میں رہنا بے رحمی ہے۔ کئی بار ایسے حالات میں جبکہ بیوی خود بھی گھر میں نہیں ہے، رشتے داروں کی وہاں موجودگی سے عرضی دہندہ کی زندگی پر گہرا اثر پڑا ہوگا۔ خاتون کے شوہر نے شادی کے تین سال بعد سال 2008 میں ہی طلاق کی عرضی فائل کی تھی۔
ان دونوں کی شادی مغربی بنگال کے نابا دویپ میں ہوئی تھی۔ بعد میں 2006 میں یہ دونوں کولا گھاٹ چلے آئے، جہاں شوہر کام کرتا تھا۔ پھر 2008 میں بیوی کولکاتہ کے نارکیل ڈانگہ چلی گئی۔ اس کا کہنا تھا کہ یہاں پر رہنا اس کے لیے زیادہ بہتر ہے، کیونکہ یہ سیالدہ سے نزدیک پڑتا ہے، جہاں وہ کام کرتی ہے۔ حالانکہ پوچھ تاچھ کے دوران اس نے دعویٰ کیا کہ وہ اپنے شوہر سے دور اس لیے ہوئی کیونکہ وہ بے بس ہو گئی تھی۔
2008 میں کولا گھاٹ واقع شوہر کے گھر سے بیوی کے چلے جانے کے بعد بھی اس کا کنبہ اور ایک دوست وہیں ٹھہرے رہے۔ 2016 میں بیوی اُتر پارا چلی گئی۔ شوہر کا کہنا ہے کہ بیوی کا اس سے دور رہنا بے رحمی ہے۔ اس کے علاوہ اس نے یہ بھی کہا کہ بیوی کسی طرح کا تعلق رکھنے یا پھر بچے پیدا کرنے کی خواہش مند نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔