شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو

[]

شجاعت علی ریٹائرڈ آئی آئی ایس

بڑی ہی مسرت کی بات ہے کہ آج کل محفل قوالی یا محفل سماع نوجوانوں میں بڑی مقبول ہورہی ہے۔ تحقیقات سے پتہ چلتاہے کہ فنِ قوّالی کا آغاز ماضی کے Persia یعنی موجودہ ایران اور افغانستان میں آٹھویں صدی کے دوران آغاز ہوا تھا اور گیارہویں صدی میں یہ طرز موسیقی جنوبی ایشیاء کے علاوہ ترکی‘ ازبکستان اور پھر تیرہویں صدی میں ہندوستان میں داخل ہوئی۔ سماع کا لفظ مرکزی ایشیاء اور ترکی میں قوالی کے لئے استعمال کیاگیاہے جبکہ ہندوستان‘ پاکستان اور بنگلہ دیش میں اسے محفل سماع ہی کہاجاتاہے۔ قول کا مطلب اللہ کی باتیں ہیں اور اسی لفظ سے قوالی کا لفظ بنایاگیاہے یعنی اللہ کا ذکر۔ قوالی میں جو شعری اصناف استعمال کئے جاتے ہیں اس میں حمد یعنی اللہ کی تعریف‘ نعت یعنی حضور اکرمﷺ کی عظمت کا بیان‘ منقبت یعنی حضرت امام علیؓ یا پھر عظیم بزرگان دین کی شان میں لکھاگیاکلام۔ مرثیہ بھی ایک صنف ہے جو حضرت امام حسینؓ کے خاندان کی شہادت کربلا کے واقعات کو اجاگر کرتاہے۔

 

اور آخری صنف غزل کی ہوتی ہے جسے محبوبہ سے گفتگو کرنے کا عمل بھی کہاجاتاہے۔ غزل کی گائیکی قوالی کی شکل میں بھی ہوتی ہے اور اس سے مختلف بھی۔ قوالی میں عام طورپر ایک کلام 15 تا 30 منٹ کے لئے گایاجاتاہے لیکن باغی قوال عزیز میاں نے ایک کلام ”حشر کے روز یہ پوچھوں گا“ کو لگ بھگ 115 منٹ تک گاکر ایک ریکارڈ قائم کیاہے۔ وہیں پر نصرت فتح علی خان نے اپنے مخصوص انداز میں دو قوالیوں کو ایک ایک گھنٹے تک پیش کیا۔ ہندوستان میں حضرت امیرخسروؒ دہلوی چشتی کو قوالی متعارف کروانے کا اعزاز حاصل ہے۔ حیدرآباد میں ویسے تو قوالی کے سبھی موسیقار منجھے ہوئے ہیں لیکن ملک گیر سطح پر وارثی برادرس کو بڑی شہرت حاصل ہوئی ہے۔ اس بات سے کسے انکار ہوسکتاہے کہ انسان کے کردار کی تعمیر میں بصارت اور سماعت کا بھی اصل دخل ہوتاہے۔ یہی دو عوامل دل ودماغ پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اگر اثرات مثبت ہوں تو فائدہ پہنچاتے ہیں اگر منفی ہوں تو نقصان کا سبب بنتے ہیں۔ یہاں یہ دہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ”قول“ کی نظمیہ شکل قوالی ہے جو مخصوص طرز پر سازوں کے ساتھ گائی جاتی ہے اور یقیناً لفظ قوالی قول کی ہی مرکب شکل ہے۔ اس کا چلن خانقاہوں سے شروع ہوکر راج محلوں سے ہوتا ہوا درگاہوں اور عوامی محلوں تک عام ہے۔ قوالی چونکہ شاعری کی ہی ایک صنف ہے اس لئے شاعر بزرگان دین کے اقوال کو نظم کرکے قوالی کی شکل دیتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ آج کی قوالی اپنے مقصد سے ہٹ گئی ہے اور کمرشیل خطوط پر گائی جارہی ہے۔ فلموں سے بھی اس کا اٹوٹ رشتہ قائم ہوگیاہے۔ لیکن ان تمام وجوہات کے باوجود کچھ خاندانی قوال اس فن کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں جن میں پرویز و ساتھی‘ احسان حسین خان اور عتیق حسین خان شامل ہیں۔ اس طرح کے موسیقاروں کی وجہ سے ان کی گائیکی میں قوالی کی روح اب بھی موجود ہے۔ بے شمار نشیب وفراز کے باوجود محفل سماع کا یہ موسیقی ریز سلسلہ اب بھی مخصوص محفلوں میں جاری و ساری ہے۔ اس کے چاہنے والے کیلئے روحانی محفلیں سجائی جارہی ہیں‘ درگاہوں میں محفل سماع کا ہونا لازم ہے لیکن آج بھی بے شمار گھرانوں اور محفلوں میں سماع کی گونج سنائی دیتی ہے۔ پانچ دہے قبل صابری برادرس کی قوالیاں ہرگھر کی رونق بڑھاتی تھیں۔ عزیز میاں‘ بہاالدین‘ قطب الدین‘ فتح علی خان‘ مبارک علی خان‘ منشی رضی الدین اور نصرت فتح علی خان نے کافی دھوم مچا رکھی تھی۔

 

حیدرآباد کے عزیز احمد خان وارثی کی قوالیوں کے پروگرام کے لئے ٹکٹ رکھے جاتے تھے۔ شنکر شمبھو‘ عزیز نازاں اور جانی بابو قوال نے بھی قوالی کے رنگوں کے ایسے نقوش چھوڑے ہیں جو آج بھی تازہ دکھائی دیتے ہیں۔ حیدرآباد کے قوال ہارمونیم‘ طبلہ‘ ڈھولک اور اپنے ہم نواؤں کی تالیوں کے ذریعہ ہی شاندار ماحول بناتے ہیں۔ کہیں کہیں سارنگی اور بلبل ترنگ بھی استعمال ہوتاہے۔ قوالی کے دوران موسیقار ’اقوال زرین‘ پر مبنی اشعار سناتے ہوئے گرہ لگاتے ہیں۔ بزرگان دین کے یہ اقوال زرین سامعین پر بڑا گہرا اثر چھوڑتے ہیں کیونکہ یہ ان کی فکر کا نتیجہ ہوتے ہیں اور کئی اقوال آسمانی کتابوں سے بھی اخذ کئے جاتے ہیں۔ یہ کم لفظوں میں زیادہ معنی و مطالب لئے ہوئے ہوتے ہیں۔ انہیں غور سے سناجائے تو فکر کی تہہ تک پہنچاجاسکتاہے۔ سماع کی محفلوں میں بیٹھنے والے لوگوں کی سوچ میں غیرمعمولی تغیر پیدا ہوتا ہے اور وہ مذہب کی عظمتوں کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔ یہ فانی دنیا انہیں ہیچ دکھائی دیتی ہے۔ وہ اللہ اور رسولؐ کی شان میں سنائے جانے والے اچھے اشعار پر اپنی جیبیں خالی کرکے بے انتہا ذہنی‘ جسمانی اور روحانی سکون حاصل کرتے ہیں۔ محفل سماع کا آغاز حمد سے ہوتاہے اور وہ نعت شریف سے گزرتا ہوا منقبت کی طرف جاتاہے اور پھر رنگ پر ختم ہوجاتاہے۔ محفل سماع کے آداب سے ناواقف لوگ حمد کے اختتام کے بعد غزل کی فرمائش کردیتے ہیں جو انتہائی معیوب بات ہے کیونکہ محفل سماع میں عام طرح کی غزل پیش نہیں کی جاتی ہے۔

 

قوالی زیادہ تر اردو اور پنجابی زبان میں منعقد ہوتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کئی ایک قوالیاں فارسی‘ برج بھاشا اور سرائیکی زبانوں میں بھی گائی جاتی ہیں۔ چھوٹے بابو قوال بنگالی زبان میں قوالیاں سناتے ہیں لیکن اب علاقائی زبانوں میں بھی قوالی کا چلن شروع ہوچکا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بیجا نہ ہوگاکہ علماء اور مشائحقین عورتوں کی جانب سے پیش کی جانے والی قوالی میں تشریف نہیں رکھتے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ عابدہ پروین صوفیانہ کلام سناتی ہیں لیکن ان کا طرز پیشکش قوالی جیسا نہیں ہوتا۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتاکہ بین الاقوامی شہرت کے حامل قوالوں نے دنیا کے ہر بڑے ملک میں اپنے فن کے ذریعہ نہ صرف خود شہرت پائی ہے بلکہ اردو زبان کو بھی شہرت کی بلندیوں تک پہنچادیاہے۔ بہرحال محفل سماع روح کو تسکین پہنچاتی ہے۔ میرے ایک دوست نے والد محترم سے سوال کیا کہ کیا موسیقی حرام ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ایسی موسیقی جو شہوانی جذبات کو بھڑکا دیں حرام ہیں اور ایسا ساز جو روحانی تسکین کا

 

سبب بن جائے وہ حلال جیسی شہ بن جاتی ہے۔ محفل سماع میں بیٹھتے ہیں اور موسیقاروں کی خوبصورت آواز کو سنتے ہیں تو بس یہی خیال آتا ہے کہ

اُس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک

شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *