تکفیری دہشت گرد الجولانی کی معتدل شناخت پیش کرنے کی کوشش

[]

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لبنانی ویب سائٹ النشرہ نے تکفیری دہشت گرد تنظیم تحریر الشام کے سربراہ ابومحمد الجولانی کے سی این این کو دیئے گئے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ الجولانی ایک نئے انداز میں، جدید لباس، تراشی ہوئی داڑھی، کٹے ہوئے بالوں اور ایسی گفتگو کے ساتھ بھیس بدل کر سامنے آیا ہے تاکہ تمام فرقوں اور گروہوں کے لیے قابل قبول لگے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ الجولانی القاعدہ کے نظریات کا پروردہ اور عراق میں دہشت گرد تنظیم کے سابق رہنما ابومصعب الزرقاوی کا شاگرد رہا ہے۔

اخبار نے لکھا ہے کہ الجولانی داعش کے سابق سربراہ ابوبکر البغدادی سے بھی تربیت پاچکا ہے۔ اس نے شام میں دہشت گرد تنظیم النصرہ فرنٹ کے قیام میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے 2016 میں تحریر الشام یا فتح الشام کے نام سے دوبارہ تنظیم کو منظم کیا۔ اب وہ خود کو ایک سیاسی رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا مقصد شام کی آزادی ہے۔

الجولانی نے 2015 میں النصرہ فرنٹ کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ اس گروہ کا مغربی ممالک یا ان کے مفادات پر حملہ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ اس نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے القاعدہ کے سابق سربراہ ایمن الظواہری کی طرف سے واضح ہدایات ملی ہیں کہ شام کو امریکہ یا یورپ کے خلاف حملوں کا مرکز نہ بنایا جائے۔  

النصرہ فرنٹ نے لبنان کو بھی متاثر کردیا جہاں کار بم دھماکوں اور خودکش حملوں نے متعدد شہریوں کی جانیں لیں۔ اس گروہ نے فرقہ وارانہ اور مذہبی جنگ کو ہوا دینے کی کوشش کی۔ اس تناظر میں الجولانی جس کا اصل نام مبینہ طور پر احمد الشرع بتایا جاتا ہے، کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے ان حقائق کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

النشرہ کے مطابق الجولانی نے القاعدہ اور داعش کے ساتھ اپنی دہشت گردی کی سرگرمیاں 2008 میں عراق میں امریکی قید سے رہائی کے بعد شروع کیں۔ کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ شام کی موجودہ صورت حال کو سمجھنے کے لیے الجولانی کی موجودہ اور ماضی کے کردار کے درمیان فرق کو واضح کرنا ضروری ہے۔ آج الجولانی دعویٰ کرتا ہے کہ اگر تحریر الشام دہشت گرد گروہ کے طور پر برقرار رہی تو وہ اسے تحلیل کر دے گا۔  

موجودہ حالات میں الجولانی ترکی کی براہ راست حمایت، امریکی اور اسرائیلی ہتھیاروں اور یوکرین کی مدد سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ترکی الجولانی کی حمایت سے نہ صرف شامی حکومت کو نشانہ بنانا چاہتا ہے بلکہ اس کا مقصد کرد فورسز قسد کو نقصان پہنچانا بھی ہے۔دوسری طرف داعش الجولانی کو اپنے زیر اثر علاقوں پر قابض ہونے کی اجازت نہیں دے گی کیونکہ یہ ترکی کی عرب ممالک پر برتری کو مزید مضبوط کرے گا۔

النشرہ کے مطابق الجولانی کی سرگرمیوں کے اہداف بہت وسیع ہیں اور ان کا شامی عوام کے حقوق سے کوئی تعلق نہیں۔ شامی ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات ترکی کے اہداف اور روس کے ان مفادات پر مبنی ہیں، جو شام اور یوکرین کے معاملے میں امریکیوں کے ساتھ ہونے والے معاہدے کا حصہ ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے وہ مقاصد بھی شامل ہیں، جن میں ایران کے ذریعے حزب اللہ کو دی جانے والی امداد کے راستے منقطع کرنا شامل ہے اور یہ ہدف حمص کو کنٹرول کرنے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ان تمام اہداف کی قیمت شامی عوام کو چکانی پڑ رہی ہے۔

لبنانی ویب سائٹ نے مزید لکھا کہ کم از کم لبنانی عوام کے لیے یہ بات واضح ہونا چاہیے کہ وہ شامی اپوزیشن خاص طور پر مسلح گروہوں کی اصل حقیقت کو پہچانیں۔ چہرے اور لباس کی تبدیلی ان گروہوں اور ان کے رہنماؤں کی حقیقت اور ماہیت کو تبدیل نہیں کر سکتی۔ تاریخ ایک بار پھر نئے انداز اور نئے چہرے کے ساتھ خود کو دہرانے کی کوشش کر رہی ہے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *