[]
مہر نیوز کے نامہ نگار کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے خطے کی حالیہ صورت حال کے حوالے سے ایک خصوصی نیوز پروگرام میں اظہار خیال کیا۔
انہوں نے کہا کہ میری رائے میں سب کچھ واضح تھا، اس سے پہلے تجزیے اور رپوٹس موجود تھیں جو اس طرح کے منصوبے کی نشاندہی کر رہی تھیں۔ ہم جانتے تھے کہ امریکہ اور صیہونی حکومت پس پردہ کوئی پلان بنا رہی ہے جس سے مزاحمتی محور کو پے در پے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور یہ پلان ہمیشہ موجود رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ اور لبنان میں ہونے والی پیش رفت کے بعد، ان منصوبوں کا جاری رہنا فطری تھا، ہمارے اپنے ملک اور شام کے سیکورٹی انفارمیشن سسٹم میں ہمارے دوست ادلب اور علاقے کی ان سرگرمیوں سے پوری طرح باخبر تھے اور تمام متعلقہ معلومات بر وقت شامی حکومت اور فوج کو بھی منتقل کر دی گئیں۔
عراقچی نے مزید کہا کہ شامی فوج کی اس حملے کا مقابلہ کرنے میں ناکامی باعث حیرت تھی اور دوسری چیز دہشت گردوں کی برق رفتاری تھی کہ جب میں دوحہ سربراہی اجلاس میں تھا، خطے کے تمام ممالک کا ایک ہی سوال تھا کہ شامی فوج اتنی جلدی کیوں پسپائی اختیار کر گئی اور اس کی مزاحمت اتنی مختصر کیوں ہے اور حملے کی اس سبک رفتاری نے سب کو حیران کر دیا تھا۔
شامی فوج نفسیاتی جنگ ہار گئی
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ بشار اسد خود جب لاریجانی اور میں نے ان سے ملاقات کی تو وہ بھی حیران رہ گئے اور اپنی ہی فوج کے رویے پر شکایت کی اور یہ بات واضح تھی کہ ان کے پاس حتی شام کی حکومت کے پاس فوج کے بارے میں کوئی مناسب تجزیہ نہیں تھا۔ میرے خیال میں شام کی فوج نے نفسیاتی میدان میں شکست سے دوچار ہوئی۔
انہوں نے واضح کیا کہ ایران اور شام کے درمیان چالیس سالہ تعلقات تین مختلف شعبوں میں رہے ہیں جن میں سے ایک مزاحمت ہے، شام مزاحمتی محور کا ایک اہم رکن ہے اور اس نے محاذ آرائی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ فلسطینیوں کے دفاع میں صیہونی رجیم کا دباؤ برداشت کیا ہے اور کبھی بھی اس نظرئے سے پیچھے نہیں ہٹا، ہمارے تعلقات ہمیشہ قائم رہے ہیں اور ہم نے ہمیشہ مزاحمت کے میدان میں ایک اہم رکن کے طور پر شام کی حمایت کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران اور شام کے درمیان رابطے کا دوسرا پہلو داعش کے خلاف جنگ ہے: داعش ایک مقام پر ایک علاقائی اور غیر علاقائی فتنے کے طور پر ابھری اور پہلے عراق اور پھر شام میں پھیل گئی اور بین الاقوامی سطح پر تشویش پیدا کی۔ اس عفریت کے خلاف جنگ میں اہم کردار اسلامی جمہوریہ ایران نے داعش سے نمٹنے میں ادا کیا جو شام اور عراق دونوں کی درخواست پر تھا اور ہم نے ان ممالک میں فوج بھیجی اور یقیناً یہ بنیادی طور پر ہماری اپنی حفاظت کو یقینی بنانا تھا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ اگر ہم عراق اور شام میں نہیں لڑتے تو ہمیں ان کے ساتھ ایران میں لڑنا پڑتا، اس لیے ہمیں اپنی سرزمین سے باہر داعش کے ساتھ لڑنا پڑا تاکہ ہمارے ملک میں کم سے کم خطرے کا سامنا کیا جا سکے۔ سچی بات یہ ہے کہ داعش پر فتح بنیادی طور پر شہید قاسم سلیمانی کی کامیابی تھی جنہوں نے داعش کے خلاف آپریشن کی قیادت کی۔
شام پر حالیہ حملے آستانہ عمل کے خلاف تھے
انہوں نے کہا کہ جب داعش کو شکست ہوئی تو ہماری افواج جو شامی حکومت کی درخواست پر وہاں گئی تھیں، شامی حکومت کی درخواست پر دوبارہ واپس آ گئیں، اور ہمارے پاس کوئی دوسری ذمہ داری نہیں تھی، البتہ ہماری کچھ افواج وہاں موجود تھیں جو عسکری مشاورت کے مقصد سے تھیں۔
عراقچی نے کہا کہ شام کے لیے ہماری حمایت کا تیسرا پہلو شام کی حکومت اور عوام اور مخالفین کے درمیان رابطے سے متعلق ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ شام کی حکومت کو اپنے مخالفین کے ساتھ بات چیت کرنے کی رہنمائی کی تاکہ ان کے درمیان اختلافات کو دور کیا جا سکے اور ہم نے اس معاملے میں مشورہ اور رہنمائی کی حد تک ان کے ساتھ تعاون کیا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ حالیہ حملے آستانہ اجلاسوں کے عمل کے خلاف تھے، آستانہ عمل کے مقاصد میں سے ایک یہ بھی تھا کہ تین ضامن ممالک ایران، روس اور ترکی امن کے بعد شام اور حزب اختلاف کے درمیان سیاسی مذاکرات، سیاسی اصلاحات اور آئین میں تبدیلی کے لیے مدد کریں گے۔ اور ہم پچھلے 10 سالوں میں اس سمت میں آہستہ آہستہ آگے بڑھے ہیں اور یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ رفتار توقع کے مطابق نہیں تھی۔
عراقچی نے واضح کیا کہ بشار اسد کی حکومت کے پاس اس معاملے میں لچک اور رفتار بہت کم تھی۔ شام کے داخلی معاملات، مخالفین کے ساتھ بات چیت یا ممکنہ طور پر ان کا مقابلہ کرنا، یہ خالصتا خود شامی فریق کا معاملہ تھا، اور ہم نے صرف مشاورت اور رہنمائی کی حد تک ان کی مدد کی۔ یہ دراصل وہ حصہ ہے جو اس وقت مشکل میں ہے، اور شامی فوج نے یہاں اپنا کام ٹھیک طریقے سے نہیں کیا، اور ہمیں ان کے اندرونی مسائل کے حل کے لیے شامی فوج کی جگہ کبھی نہیں لینی چاہیے تھی۔
شامی حکومت کے مخالفین کئی گروہوں سے ہیں
انہوں نے کہا کہ شام میں ہماری عسکری موجودگی داعش کے خلاف جنگ تھی اور یہ مشن داعش کی شکست کے بعد ختم ہو گیا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمارا موقف ہمیشہ شام کی حکومت اور ان کے مخالفین کے درمیان مذاکرات کی حمایت کا رہا ہے۔ شام میں حزب اختلاف کے بعض گروہ اقوام متحدہ کی دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں درج تھے اور حقیقت یہ ہے کہ شامی حکومت کے مخالفین بہت سے مختلف گروہوں سے ہیں۔