[]
افغانستان کے سرکردہ کرکٹ کھلاڑیوں راشد خان اور محمد نبی نے طالبان حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خواتین کی طبی تعلیم اور تربیت پر پابندی عائد کرنے والا اپنا فیصلہ منسوخ کریں
افغانستان میں طالبان حکام نے ملک کے طبی تعلیمی اداروں میں خواتین کے تعلیم حاصل کرنے پر گزشتہ ہفتے پابندی عائد کر دی۔ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے طالبان کے اس فیصلے کو خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر حملہ قرار دیا ہے۔ دفتر کی ترجمان روینہ شمدسانی کے مطابق یہ خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم، روزگار اور دیگر شعبوں میں نشانہ بنانے والے طالبان کے امتیازی اقدامات کی طویل فہرست میں تازہ ترین اضافہ ہے۔ یہ اقدامات واضح طور پر خواتین اور لڑکیوں کو عوامی زندگی سے خارج کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔یہ ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ یہ اعلیٰ تعلیم کی طرف خواتین اور لڑکیوں کے لئے باقی رہ جانے والے واحد راستے کو ختم کر دے گا اور پہلے سے ہی ناکافی خاتون دائیوں، نرسوں اور ڈاکٹروں کے مسئلے کو مزید بپچیدہ کر دے گا۔ لہٰذا انہوں نے طالبان پر زور دیا کہ وہ اس نقصان دہ ہدایت کو منسوخ کر دیں۔ شمدسانی کے مطابق طالبان حکام پر لازم ہے کہ وہ پوری آبادی کی فلاح و بہبود، سلامتی اور تحفظ کی ذمہ داری قبول کریں۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے بھی طالبان سے اس نقصان دہ پابندی کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے مطابق، خواتین اور لڑکیوں کے انسانی حقوق کو یقینی بنایا جائے جیسا کہ افغانستان کے بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدات میں عہد کیا گیا ہے۔
افغانستان میں مرد طبی عملے کو خواتین کا علاج کرنے کی اجازت نہیں ہے جب تک کہ کوئی مرد رشتہ دار ساتھ نہ ہو ، ایسے میں یہ فیصلہ خواتین اور لڑکیوں کی پہلے ہی غیر مستحکم صحت کی سہولیات تک رسائی کو محدود کر دے گا ۔ علاوہ ازیں افغانستان پہلے ہی دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں زچگی کے دوران شرح اموات بہت زیادہ ہے۔ اس کے ایک بڑی وجہ صحت کے شعبے میں خواتین کی عدم دستیابی ہے، اور طالبان کے اس فیصلے کے بعد یہ صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔ افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) نے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے افغانستان کے صحت کی دیکھ بھال کے نظام اور ملک کی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ افغانستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ نے اس پابندی کو ناقابل فہم اور ناقابل جواز قرار دیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (ٹوئٹر) پر لکھا کہ اگر اس پر عمل درآمد کیا گیا تو اس کا پوری افغان آبادی پر تباہ کن اثر پڑے گا اور اسے تبدیل کرنا ہوگا۔ ہیومن رائٹس واچ نے بھی اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس پابندی کے نتیجے میں افغان خواتین کے لیے غیر ضروری درد، تکلیف، بیماری اور موت ہو گی، کیونکہ ان کے علاج کے لیے خواتین صحت کی دیکھ بھال کرنے والی کارکن نہیں ہوں گی۔
علاوہ ازیں، افغان کرکٹرز نے بھی طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں اور پابندی ختم کریں۔ معروف کھلاڑیوں راشد خان اور محمد نبی نے ان رپورٹوں پر اپنے ردعمل میں اس اقدام کو انتہائی غیر منصفانہ قرار دیا کہ طالبان نے خواتین کو طبی تعلیم اور تربیت حاصل کرنے سے منع کر دیا ہے ۔ ایکس (ٹوئٹر) پر اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں، افغانستان کے ٹی ٹوئنٹی کپتان راشد خان نے لکھا کہ تعلیم کو اسلامی تعلیمات میں مرکزی مقام حاصل ہے، جس میں مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے علم کے حصول پر زور دیا گیا ہے۔ قرآن سیکھنے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے اور دونوں جنسوں کی مساوی روحانی قدر کو تسلیم کرتا ہے۔ اپنی افغان بہنوں اور ماؤں کی حمایت میں بات کرتے ہوئے، راشد کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ افغان خواتین کے مستقبل کے ساتھ ساتھ افغان معاشرے کے وسیع تر تانے بانے پر گہرا اثر ڈالے گا۔ ان کے بقول افغانستان کو ہر شعبے خصوصاً طبی شعبے میں پیشہ ور افراد کی اشد ضرورت ہے۔ خواتین ڈاکٹروں اور نرسوں کی شدید کمی خاص طور پر تشویشناک ہے، کیونکہ یہ خواتین کی صحت کی دیکھ بھال اور ان کے وقار کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔ ہماری بہنوں اور ماؤں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ طبی پیشہ ور افراد کی طرف سے فراہم کردہ دیکھ بھال تک رسائی حاصل کریں جو ان کی ضروریات کو صحیح معنوں میں سمجھتے ہیں۔ راشد نے اس بات پر زور دیا کہ سب کو تعلیم فراہم کرنا صرف ایک معاشرتی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی ذمہ داری ہے جس کی جڑیں ہمارے عقیدے اور اقدار میں گہری ہیں۔
سابق کپتان محمد نبی نے ایکس (ٹوئٹر) پر لکھا کہ طالبان کا لڑکیوں پر طبی تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگانے کا فیصلہ نہ صرف دل دہلا دینے والا ہے بلکہ انتہائی ناانصافی ہے۔ انہوں نے اسلام میں تعلیم کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا اور طالبان سے کہا کہ وہ مذہب کی اقدار پر غور کریں۔ لڑکیوں کو سیکھنے اور اپنے لوگوں کی خدمت کرنے کا موقع نہ دینا ان کے خوابوں اور ہماری قوم کے مستقبل دونوں کے ساتھ غداری ہے۔ انہوں نے طالبان پر زور دیا کہ وہ ’ہماری بیٹیوں کو تعلیم حاصل کرنے، بڑھنے اور سب کے لیے ایک بہتر افغانستان بنانے دیں۔ یہ ان کا حق ہے، اور اس کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے۔‘ واضح رہے کہ افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے لڑکیوں اور خواتین کو سیکنڈری اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں جانے سے روک دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق طالبان حکام نے ایک پوری نسل کا مستقبل خطرے میں ڈال دیا ہے۔ افغانستان میں کم از کم 14 لاکھ اسکول جانے کی عمر والی لڑکیوں کو طالبان نے تعلیم کے حق سے محروم کر رکھا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔