[]
مہر نیوز کے نامہ نگار کے مطابق، ایران اور پاکستان کے درمیان 2009 میں گیس پائپ لائن کا معاہدہ ہوا جس کی مدت 25 سال معین کی گئی تھی۔ اس منصوبے کو اپنے آغاز سے ہی گوناگون مشکلات کا سامنا تھا جس کی وجہ اس کی تکمیل کا سلسلہ سست روی کا شکار ہوا۔ پاکستان توانائی کی کمی کی وجہ سے اس منصوبے کی طرف محتاج ہے۔ ایران نے اپنی سرحد کے اندر 781 کلومیٹر تک پائپ لائن بچھاکر قرارداد کے مطابق اپنا کام مکمل کرلیا ہے۔
پاکستان کی طرف صوبہ بلوچستان میں 665 کلومیٹر جبکہ صوبہ سندھ میں 115 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھانا قرار پایا تھا۔ ایران کے اندر پارس گیس فیلڈ سے پاکستانی سرحد تک پائپ لائن بچھایا گیا ہے۔
گذشتہ سال گیس پائپ لائن منصوبے پر سستی کی وجہ سے تہران نے اسلام آباد کو انتباہ کیا تھا کہ مارچ 2024 تک منصوبے پر پیشرفت نہ ہونے کی صورت میں جرمانے کے حوالے سے عالمی عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔ ایران نے کہا تھا کہ اسلام آباد کی طرف سے منصوبے پر عدم دلچسپی کی وجہ سے ایران کو 18 ارب ڈالر نقصان ہوا ہے۔
ایران کے بیان کے بعد پاکستان نے ممکنہ ہرجانے کی رقم کو کم سے کم کرنے کے لئے کچھ اقدامات کرنا شروع کیا۔
ایرانی وزیر پیٹرولئیم نے کہا ہے کہ صدر رئیسی کی حکومت کے دور میں ہونے والے اقدامات کی وجہ سے امکان ہے کہ ان کا دور حکومت ختم ہونے سے پہلے پاکستان کو گیس کی درامد شروع ہوجائے گی۔
مذکورہ اطلاعات کی روشنی میں دیکھنا ہوگا کہ پاکستان ہرجانے سے بچنے کے لئے کوئی پیشرفت کرتا ہے یا معاہدے کے مطابق عمل نہ کرنے کی وجہ سے 18 ارب ڈالر کا ہرجانہ ادا کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے؟