خصوصی انٹرویو: کانگریس جنرل سکریٹری کے. سی. وینوگوپال کیرالہ میں اپنے مخالفین کو غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں

[]

وزیر اعظم کے پاس صرف ایک ہی ہتھیار ہے اور وہ فرقہ وارانہ پولرائزیشن ہے۔ ان کے پاس عوامی مسائل کا کوئی حل نہیں ہے اور ملک میں خطرناک سطح پر پہنچتی بے روزگاری پر کوئی جواب نہیں ہے۔ آج تنہا سرکاری محکموں میں ہی 30 لاکھ عہدے خالی ہیں۔ ضروری چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ کو دیکھیے، رسوئی گیس اور ڈیزل کی قیمت دیکھیے۔ مرکزی حکومت نے ان سب کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟ آخر حکومت کب کسانوں کی پریشانیوں اور زرعی بحران پر کچھ کرے گی؟ خواتین کی خود مختاری پر کیا کرے گی؟ ان محاذ پر حکومت خاموش ہے۔ وہ صرف ووٹ حاصل کرنے کے لیے فرقہ وارانہ جذبات مشتعل کرتے ہیں، وہ ’تقسیم کرو اور بادشاہت کرو‘ کی پالیسی پر کام کر رہے ہیں۔ کیا وزیر اعظم کو انتخاب جیتنے کے لیے طبقات کے درمیان نفرت پھیلانی چاہیے؟ کانگریس کو نفرت کی اس سیاست کا جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ عوام خود اسے سمجھ رہے ہیں۔

میں ایک مذہبی شخص ہوں اور ہر مہینے گرووَیور مندر جاتا ہوں، لیکن میں اپنی مذہب کی تشہیر نہیں کرتا۔ میرا ایمان، میرا مذہبی عقیدہ مجھے مذہب کے نام پر کسی کی جان لینا نہیں سکھاتا ہے۔ میرا مذہب تو سب کے لیے دعا کرنا سکھاتا ہے۔ بی جے پی والے دراصل بھگوان سے ڈرنے والے لیڈر نہیں ہیں، اگر ایسا ہوتا تو کیا وہ اس طرح نفرت پھیلاتے؟ ہم جانتے ہیں کہ یہ سب حقیقی ایشوز سے لوگوں کی توجہ بھٹکانے کے ہتھکنڈے ہیں اور کانگریس ہر طرح سے کوشش کرے گی کہ لوگ اس بہکاوے میں نہ آئیں اور حقیقی مسائل کو پہچانیں۔

پی ایم مودی نے ہمارے انتخابی منشور پر حملہ کیا، ہم نے تو ان سے اسی لیے ملنے کا وقت طلب کیا ہے تاکہ ہم انھیں سمجھا سکیں کہ دیکھو ’نیائے پتر‘ میں کیا لکھا ہے۔ ہم نے اپنے لیڈروں کو کہا ہے کہ وہ وزیر اعظم کو کانگریس کا انتخابی منشور بھیجیں۔ ہمارا انتخابی منشور ہی ہمارا اسلحہ ہے، ہماری پانچ گارنٹیاں ’یوا نیائے‘، ’حصے داری نیائے‘، ’مہیلا نیائے‘، ’کسان نیائے‘ اور ’شرمک نیائے‘ ہی ہماری طاقت ہے۔ ہم جب اقتدار میں آئیں گے تو ان وعدوں کو نبھائیں گے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *