[]
مہر خبررساں ایجنسی، میگزین گروپ – فاطمہ برزوئی: بین الاقوامی خبر رساں ایجنسیوں نے رپورٹ دی ہے کہ غزہ میں گزشتہ چھے ماہ کے دوران 33 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں 6 ہزار بچے اور 7 ہزار سے زائد خواتین ہیں۔ اس دوران غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی وحشیانہ بربریت نے بہت سے ایشیائی، یورپی اور حتیٰ کہ امریکی شہریوں کو بھی اس بات پر مجبور کر دیا کہ وہ ہر طرح سے فلسطین کی حمایت کریں!
فلسطین کی حمایت کے طریقوں میں سے ایک طریقہ اسرائیل کی حمایت کرنے والی مصنوعات اور کمپنیوں کا بائیکاٹ کرنا اور ان پر پابندی لگانا ہے۔ یہ طریقہ جلد ہی سوشل میڈیا میں ایک وسیع “بین الاقوامی مہم” میں تبدیل ہو گیا اور دنیا بھر کے سوشل میڈیا صارفین نے اس کے بارے میں مختلف مواد شائع کیا۔ جس کے نتیجے میں اسرائیل نواز کمپنیوں پر پابندی سنگین ہو گئی۔
اس طریقہ کار کے مطابق پہلے تو اسرائیل اور اس کے حامیوں کی مصنوعات کی فہرستیں منتشر کر کرکے لوگوں سے کہا گیا کہ اگر آپ یہ چیزیں خریدیں گے تو آپ غزہ میں بچوں اور خواتین کے قتل میں شریک ہوں گے۔
طریقہ کار کے اگلے مرحلے میں مذکورہ مصنوعات کا آسانی سے پتہ لگانے کے لئے ایک ایسا سافٹ ویئر ڈیزائن کیا گیا جو بار کوڈ کو اسکین کرکے یہ طے کرتا تھا کہ آیا مطلوبہ پراڈکٹ کی خریداری اسرائیل کے لیے فائدہ مند ہوگی یا نہیں؟۔
اس بائیکاٹ مہم کی فہرست میں سب سے مشہور فاسٹ فوڈ کمپنی میک ڈونلڈز بھی شامل تھی؛ ایک بین الاقوامی سطح کس دیو ہیکل فوڈ چین کہ جس کی 100 ممالک میں چالیس ہزار سے زیادہ شاخیں ہیں۔ اس کمپنی کا بائیکاٹ ان ویڈیوز سے مقبول ہوا جس میں دکھایا گیا کہ مصروف شاہراوں میں اگرچہ لوگوں کی بھیڑ ہے لیکن ’میکڈونلڈز‘ برانچ میں سوائے سٹور کے ملازمین اور سیلز والوں کے اور کوئی نہیں ہے۔
اس کے علاوہ، دیگر ویڈیوز بھی جاری کی گئیں جن میں دکھایا گیا تھا کہ لوگ میک ڈونلڈز کی برانچوں میں صارفین کو مفت ہیمبرگر دیتے ہوئے دوسروں کو مہم میں شامل ہونے کی ترغیب دیتے ہیں، اس طرح وہ اسرائیل کے ساتھ شراکت داری سے روکتے ہیں۔ کچھ صارفین فلسطینی پرچم اٹھائے لاؤڈ اسپیکر کے ساتھ میک ڈونلڈز کی برانچوں میں داخل ہوئے اور صارفین کو یاد دلایا کہ اسٹور کی مصنوعات خرید کر وہ فلسطینیوں کی نسل کشی میں اسرائیل کے ساتھ شریک ہوں گے۔
حالیہ ہفتوں میں ایسی کئی ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں، جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف ممالک کے عوام مسئلہ فلسطین سے لاتعلق نہیں ہیں اور ایک ہیمبرگر کی قیمت جتنا بھی اسرائیل کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ جب کہ دوسری طرف اس مہم سے لوگوں کو اس اجتماعی بائیکاٹ میں شامل ہونے اور غزہ کے مظلوم عوام سے لاتعلق نہ رہنے کی ترغیب ملتی ہے۔
کیا بائیکاٹ مہم کامیاب نہیں ہوئی؟
صارفین کی جانب سے فوڈ انڈسٹری کے اس دیو کا بائیکاٹ کرنے کی سب سے بڑی وجہ اس کمپنی کی طرف سے اسرائیلی فوجیوں میں ہزاروں مفت کھانے کی تقسیم تھی۔ البتہ اس سے پہلے کم و بیش یہ بات سامنے آئی تھی کہ میکڈونلڈ فلسطین اور اسرائیل کے تنازعے میں صہیونیوں کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کے مطالبات پورے کئے تھے۔
لیکن غزہ پر اسرائیل کے پے در پے حملوں اور عام شہریوں کی شہادت کے بعد، کویت، ملائیشیا اور پاکستان جیسے مسلم ممالک میں میکڈونلڈز فرنچائز کے مالکان نے اس کمپنی سے علیحدگی اختیار کرنے کے لیے بیانات جاری کرتے ہوئے اور خود کو اس سے الگ کر لیا۔
انہوں نے واضح طور پر کہا کہ اس علیحدگی کی وجہ میکڈونلڈ کی صیہونی حکومت کی حمایت ہے۔ اس فوڈ چین کا پوری دنیا میں بائیکاٹ ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگی اور یہ مہم فلسطین کی حمایت کی علامتوں میں سے ایک بن گئی۔
یہاں تک کہ بالآخر گزشتہ سال 21 فروری کو یہ خبر آئی کہ امریکی میکڈونلڈ کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی فورسز اور صیہونی حکومت کے درمیان غزہ میں جاری تنازع نے مشرق وسطیٰ، فرانس اور انڈونیشیا میں کمپنی کی فروخت میں کمی کر دی ہے۔ جس نے گزشتہ سال کے آخری تین مہینوں کے لیے اپنی فروخت کے اعدادوشمار شائع کیے تھے، پتہ چلا کہ یہ تعداد توقع سے بہت کم ہے۔ اس کمپنی کے اعلان کے مطابق حالیہ عرصے میں کم فروخت کی وجہ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں اسرائیل کی حمایت کرنے والی کمپنیوں کا بائیکاٹ تھا۔ اس کے علاوہ جس وقت یہ رپورٹ شائع ہوئی اسی وقت یہ بھی بتایا گیا کہ میکڈونلڈز کے حصص کی قدر میں چار فیصد کمی ہوئی ہے۔
جب میکڈونلڈز کی فروخت اور اسٹاک ویلیو میں نمایاں کمی کی خبر شائع ہوئی تو سوشل میڈیا صارفین نے ہمیں یاد دلانا شروع کر دیا کہ بائیکاٹ اثر انداز ہوتا ہے لہذا بائیکاٹ کی اہمیت کو ہرگز نہیں نظر انداز کرنا چاہیے۔
تاہم ان پابندیوں کے بارے میں لوگوں کے ایک گروہ نے انہیں غیر موئثر سمجھا ان کا خیال تھا کہ چند صارفین کی طرف سے میکڈونلڈ جیسی بڑی کمپنیوں سے ہیمبرگر نہ خرید جانے پر انہیں کوئی خاص نقصان نہیں پہنچے گا، لیکن یہ خیال غلط ثابت ہوا۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ کمپنی ایک عالمی فاسٹ فوڈ کمپنی کے طور پر جانی جاتی ہے اور یہ ان متعدد امریکی کمپنیوں میں سے ایک ہے جن پر غزہ کے تنازعے اور جارحیت میں صیہونی حکومت کی حمایت کرنے پر مختلف ممالک بالخصوص مسلمانوں نے پابندیاں عائد کی تھیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بائیکاٹ مہم موئثر رہی ہے کیونکہ میکڈونلڈ کمپنی کو اعلان کرنا پڑا کہ وہ مقبوضہ علاقوں میں اپنی تمام شاخیں اسرائیلی کمپنی سے واپس لے لے گی تاکہ اس طرح وہ کچھ نقصانات کی تلافی کر سکے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی کمپنی “ایلونیل” کے پاس مقبوضہ علاقوں میں میکڈونلڈز کی فرنچائز ہے، اس کمپنی کو 5 ہزار ملازمین کے ساتھ 225 برانچز کی فرنچائز میکڈونلڈ کو واپس کرنا ہوگی۔
تمام تصدیق شدہ ثبوتوں کے علاوہ میکڈونلڈز کے مالکان کے اعتراف سے ظاہر ہوتا ہے کہ بائیکاٹ مہم نے اس کمپنی کے کاروبار کو کافی متاثر کیا ہے۔
جیسا کہ میکڈونلڈ کی فروخت میں کمی سے متعلق پوسٹس کے کمنٹ سیکشن میں بہت سے صارفین نے طنزیہ طور پر لکھا: ” پابندیاں موئثر نہیں ہوتیں!”
سارا معاملہ منافع اور سود کا ہے!
میکڈونلڈز سے متعلق مذکورہ خبر کے جاری ہوتے ہی بہت سے فارسی یا غیر فارسی بولنے والے صارفین نے سوشل میڈیا میں اس مسئلے کے بارے میں لکھنا شروع کر دیا۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ سب منافع کے لیے ہے، میکڈونلڈز نے ایک بار بھی اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو نقصان پہنچانے سے انکار کیوں نہیں کیا جب ہزاروں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں تو اب اس نے ایسا فیصلہ کیا۔
ایک ستم ظریف نے لکھا کہ یہ تمام فیصلے اس کمپنی کے معاشی منافع کو برقرار رکھنے سے متعلق ہیں: “ہمیشہ منافع کے لیے! اسرائیلی فوجیوں کو مفت کھانا دینے کے بعد میک ڈونلڈز کو تمام 225 اسرائیلی فرنچائزڈ ریستوران واپس خریدنے پر مجبور ہونا پڑا، کیونکہ مشرق وسطیٰ اور دیگر مسلم ممالک میں اس کمپنی پر پابندیوں سے ان کے مفادات کو زبردست نقصان پہنچا۔
بعض صارفین نے یاد دلایا کہ یہ پابندیاں ختم یا کم نہیں کی جائیں گی۔ “اگرچہ میکڈونلڈ اب اسرائیلیوں کے لیے نہیں رہا لیکن ہم پھر بھی اس سے مزید کچھ نہیں خریدیں گے،”
ایک اور صارف نے لکھا کہ “ہم پابندیوں کے لیے پہلے سے زیادہ سخت دباؤ ڈالیں گے، میک ڈونلڈز نے انسانیت کی حمایت نہیں کی اور ہم ان لوگوں کو معاف نہیں کریں گے جنہوں نے اس نسل کشی کی حمایت کی…”
ایک اور صارف نے نے طنز کرتے ہوئے لکھا: ہزاروں فلسطینیوں کے مارے جانے کے بعد میکڈونلڈ جلدی بیدار ہوا۔ لیکن میں بہرحال بائیکاٹ کروں گا۔”
ایک اور صارف نے زور دیا کہ McDonald’s اب بھی اسرائیلی مارکیٹ کے لیے پرعزم ہے اور مستقبل میں اس مارکیٹ میں ملازمین اور صارفین کے لیے ایک مثبت تجربے کو یقینی بنا رہا ہے۔ لہذا: “بائیکاٹ جاری رکھیں”
اس جائزہ رپورٹ میں دنیا بھر کے لاکھوں صارفین کے ردعمل کا خلاصہ بطور نمونہ ذکر کیا گیا ہے جو سوشل میڈیا میں وائرل ہوا۔
قابل ذکر ہے کہ دنیا میں بہت سے بیدار ضمیر لوگ اب بھی موجود ہیں میک ڈونلڈز اور دیگر اسرائیل نواز کمپنیوں کے خلاف مسلسل پابندیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ سرمایہ دارانہ دنیا میں ہر کوئی اپنے فائدے کو نظر انداز نہیں کرسکتا، لہذا لوگ ظالم طاقتوں کے جرائم سے آنکھیں چرا لیتے ہیں اور زیادہ منافع اور پیسے کے لیے قاتلوں کے ساتھ شراکت داری پر راضی ہوجاتے ہیں۔
تاہم زندہ ضمیر اور آزاد انسانوں کی اس وقت، سوشل میڈیا پر شروع کی گئی بائیکاٹ مہم ایک متاثر کن اور موثر جوابی اقدام ثابت ہوئی، میکڈونلڈ جیسی دیوہیکل کمپنی کے گرتے حصص اد کی واضح اور نمایاں مثال ہیں۔