[]
محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد
٭ ہر کرایہ نامہ کی گیارہ ماہ بعد تجدید ہونی چاہیے۔
٭ دو سالہ مدت سے زیادہ کے کرایہ نامہ کی رجسٹری کروانا چاہیے۔
٭ ہر ماہ کرایہ دار سے رسید پر دستخط لینا چاہیے۔
٭ کرایہ نامہ صرف قانون دانوں سے تحریر کروانا چاہیے۔
٭ آپ کے ایڈوکیٹ آپ کے مفادات کا بہتر تحفظ کرسکتے ہیں۔
سپریم کورٹ کا ایک حالیہ فیصلہ جو قبضہ مخالفانہ سے متعلق تھا‘ مالکینِ جائیداد میں ایک بے بنیاد بے چینی کا سبب بنا۔ جتنے منہ اتنی ہی باتیں ۔ ایک افواہ پھیلی کہ اگر کوئی کرایہ دار بارہ سال سے زیادہ عرصہ تک جائیداد پر قابض رہے وہ اس جائیداد کا مالک بن جائے گا‘ بہت سارے مالکینِ جائیداد کے لئے تشویش کا باعث بنا۔
قبضۂ مخالفانہ کا اصول اس صورت میں کارگر ہوگا جب مالکِ جائیداد اپنے حقِ مالکانہ سے بالکل غافل ہو‘ نہ وہ کوئی کرایہ حاصل کررہا ہو اور نہ اس کے کرایہ دار سے اس کا کرایہ نامہ کا کوئی معاہدہ ہو۔ اس طویل عرصہ یعنی مسلسل بارہ سال تک کرایہ دار یا قابض کا قبضہ مستقل ہو اور اس کے پاس رہائشی ثبوت کے علاوہ کئی ضروری دستاویزات یعنی ووٹرس لسٹ میں اس کا نام‘ لائٹ اور پانی کا بل اس کے نام پر آرہا ہو اور وہ میونسپل ٹیکس ادا کررہا ہو اور اس کے نام پر ٹیکس رسائد جاری ہورہی ہوں‘ اس کے اور مالک کے درمیان کوئی کرایہ نامہ کا معاہدہ ہوا ہو اور نہ ہی مالکِ جائیداد نے اس سے کرایہ کے مطالبہ کی اور تخلیہ کی نوٹس جاری کی ہو۔ علاوہ ازیں مالکِ جائیداد کے پاس جائیداد کی ملکیت کا کوئی دستاویز نہ ہو اور نہ کوئی ایسا دستاویزی ثبوت ہو جس سے وہ اپنا حقِ ملکیت ثابت کرسکے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شہر اور اضلاع میں کئی ایسے قدیم مکانات ہیں جن کے مالکین اور قابضین کے پاس کوئی دستاویزی ثبوت نہیں۔ مثلاً سو دیڑھ سو سالہ قدیم مکانات میں کئی خاندان آباد ہیں جن کے پاس کوئی دستاویز نہیں یہاں تک کہ تقسیم نامہ تک نہیں پھر بھی ان کا قبضہ حقِ مالکانہ عطا کرتا ہے۔ ایسی جائیدادیں اگر کسی کو زبانی کرایہ نامہ پر دیدی جائیں اور کرایہ کی رسید حاصل نہ کی جائے تو فکر و تردد کی بات ہوسکتی ہے۔ ایسی جائیدادیں اگر کرایہ پر دی جائیں تو ایک مکمل کرایہ نامہ تحریر کروانا چاہیے جس میں کرایہ دار اس بات کو تسلیم کرے کہ وہ کرایہ دار ہے اور آپ مالکِ مکان۔ یعنی آپ کے اور اس کے درمیان مالک و کرایہ دار کا تعلق یا رشتہ ہے۔ ایسے مالکین کے لئے فکر کی ضرورت نہیں۔
مالکینِ جائیداد کے لئے ضروری ہدایات
-1 کرایہ کی رقم اگر زیادہ ہو یا کم کسی بھی صورت میں گیارہ ماہی مدت کا کرایہ نامہ تحریر کرنا چاہیے۔
-2 اگر رقم زیادہ ہو تو لازمی طور پر کرایہ نامہ کی رجسٹری کروانا چاہیے اوراس بات کا اندراج ضروری ہے کہ کرایہ میں سے انکم ٹیکس یعنی TDS کرایہ دار ادا کرے۔
-3 کرایہ کیوصولی کا ایک رجسٹر رکھا جائے۔
-4 پراپرٹی ٹیکس کی ادائیگی باہمی رضامندی سے طئے کی جائے۔
-5 یہ شرط ضروری طور پر رکھی جائے کہ اگر دو ماہ تک مسلسل کرایہ ادا نہ کیا جائے تو تخلیہ کی کارروائی کی جائے گی۔
-6 ذیلی کرایہ نہ کرنے کی شرط رکھی جائے۔
-7 ایک معقول رقم بطور اڈوانس حاصل کی جائے جو قابلِ واپسی ہو اور جس پر کوئی سود نہ ہو۔
-8 مکان یا دوکان میں کوئی آتشیں شئے نہ رکھی جائے مثلاً بارود‘ تیل کے بیارلس‘ پٹاخے ‘ اور ایسیڈ وغیرہ۔
-9 رہائشی مکان میں کوئی تجارتی سرگرمیاں نہ ہوں۔
-10 اختتام مدت کے بعد کرایہ نامہ کی تجدید نئی شرائط کے ساتھ ہونی چاہیے۔
-11 کسی بھی شرط کی خلاف ورزی پر دفعہ106 ٹرانسفر آف پراپرٹی ایکٹ کی نوٹس کا ذکر ہو۔
-12 ایسی جائیدادیں جن کا کرایہ لاکھوں روپیہ ماہانہ ہو‘ لازمی طور پر ان کا کرایہ نامہ قانون دانوں سے لکھوانا چاہیے۔ کئی حضرات جو صرف تھوڑی سی ایڈوکیٹ کی فیس بچانے کے لئے ٹائپسٹ کی دوکانوں پر کرایہ نامہ ٹائپ کرواتے ہیں جو صرف ایک Format کی نقل ہوتا ہے جس میں صرف مالکِ جائیداد ‘ کرایہ دار کا نام‘ جائیداد کا نمبر اور کرایہ کی رقم کا تذکرہ ہوتا ہے اور صرف دو تین سو روپیہ ادا کرکے یہ کام کروالیا جاتا ہے۔ ایسے نادان مالکینِ جائیداد بعد میں بہت پچھتاتے ہیں۔ جب انہیں پتہ چلتاہے کہ کرایہ نامہ میں ایک بنیادی نقص ہے ۔ بعض مالکینِ جائیداد اپنے تئیں بہت ہوشیار سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کام ہم خود کرواسکتے ہیں۔ یہ غلط سوچ تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔
ہم طویل وقفۂ کرایہ داری کے قائل نہیں۔ کرایہ نامہ کی مدت زیادہ سے زیادہ تین سال ہونی چاہیے۔ اس سے زیادہ نہیں۔ ہم ایک ایسے کیس سے واقف ہیں جس میں حیدرآباد کے ایک نام نہاد بڑے ایڈوکیٹ صاحب نے موجودہ میرا ٹاکیز واقع خیریت آباد کے مالکین کا کرایہ نامہ 60 سالہ مدت کے لئے رجسٹر کروایا اور کرایہ صرف1500 روپیہ مقرر ہوا۔ کرایہ دار میرا ٹاکیز کا قابض ہے۔ کروڑوں بلکہ اربوں روپیہ مالیتی جائیداد کے ورثاء اب بھی صرف1500 روپے کرایہ ماہانہ حاصل کررہے ہیں اور اپنی قسمت کو کوس رہے ہیں۔ پتہ نہیں وہ مدت کب ختم ہوگی بھی یا نہیں یا ہوسکتا ہے کہ کرایہ نامہ میں کوئی نقص ہو۔ ایسے مشوروں سے محفوظ رہیں۔ ایڈوکیٹس کاکام دیکھئے۔ نام نہیں۔ نام میں کچھ نہیں ہوتا۔ شیکسپیئر نے کہا تھا ’’ نام میں کیا ہے؟ ۔ (What is in Name)
ہمیں امید ہے اس ہدایت پر عمل کیا جائے گا اور آئندہ ہر کرایہ نامہ کی تحریر صرف اور صرف ایڈوکیٹس سے ہی کروائی جائے گی۔ مرض کے علاج کے لئے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے اور ہر قانونی حل کے لئے قانون دانوں کی خدمات حاصل کرنا چاہیے۔
دارالسلام تا گوشہ محل روڈ پر (عقب نمائش) زائد از ایک سو ایکر اراضی پر ٹمبر لابی کا قبضہ
حکومت اور میونسپل کارپوریشن کی نااہلی اور کرپشن کی وجہ سے اربوں روپیہ مالیتی اراضی پر ناجائز قبضہ
-1 صرف ایک تا دو ہزار روپیہ کرایہ۔20 ایکر اراضی۔
-2 اتنی وسیع قلب شہر میں واقع اراضی سے حکومت کی غفلت کیا معنی رکھتی ہے۔
-3 کیا حکومت ان لینڈ مافیا سے ہاتھ ملائے ہوئے ہے؟
-4 اس ضمن میں ہائیکورٹ میں(PIL) کیوں دائر نہیں کی گئی؟
٭ حکومت کوبیدار ہونا چاہیے۔
کیا یہ حکومت کی نااہلی ہے یا میونسپل کارپوریشن کے عہدیداروں کی رشوت ستانی کہ دارالسلام تا گوشہ محل روڈ (عقب نمائش میدان) کم و بیش ایک سو اراضی عرصۂ دراز سے گجراتی اور مارواڑی ٹمبر مرچنٹس لابی کے قبضہ میں ہے اور ایکرس پر مشتمل ٹمبر یارڈ پر ان کا قبضہ ہے ۔ کرایہ برائے نام ہے۔ اتنے حساس مسئلہ پر آج تک کوئی توجہ نہیں دے سکا۔ نہ عوامی نمائندے نہ عہدیدار۔
حکومت خوابِ غفلت میں ہے اور راشی اور بدعنوان میونسپل عہدیداران ناجائز قابضین سے محض یہ چند ہزار روپیہ حاصل کرتے ہیں جبکہ قلب شہر میں ایکروں رقبہ پر مشتمل اراضی پر یہ ٹمبر لابی اپنا قبضہ جمائے ہوئے اپنی جاگیر سمجھ رہی ہے۔
ایسے اوقات میں جب کہ شہر سے تیس کلو میٹر دور اراضی کی قیمت چالیس کروڑ روپیہ فی ایکر ہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کم و بیش ایک سو ایکر اراضی کی قیمت وہ بھی قلب شہر میں کیا ہوسکتی ہے۔ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ اب تک حکومت خاموش کیوں ہے اور قانون ساز اسمبلی میں یا پارلیمنٹ میں یہ سوال کیوں اٹھایا نہیں گیا۔ اگر صحیح معنوں میں دیکھا جائے قلب شہر میں واقع اس وسیع سرکاری اراضی پر ہزاروں لوگوں کو رہائش فراہم کی جاسکتی ہے۔ بڑے بڑے ہاسپٹل تعمیر کئے جاسکتے ہیں۔ رہائشی اور کمرشیل کامپلکس بنائے جاسکتے ہیں۔ فلک بوس عمارتیں تعمیر کی جاسکتی ہیں۔ لیکن صرف حکومت کے نکمے پن اور بلدی عہدیداروں کی رشوت ستانی اور بدعنوانی کی وجہ سے اس مسئلہ کو آج تک کسی بھی فورم۔ عدالت میں نہیں اٹھایا جاسکا۔ حکومت تو انکروچمنٹ کے عنوان پر بستیوں کو اجاڑ دیتی ہے اور سینکڑوں غریبوں کو بے گھر کردیتی ہے لیکن کیوں اس ٹمبر لابی سے خوفزدہ ہے ۔ کیا صرف اس لئے کہ یہ لوگ گجراتی ہیں اور ملک کا وزیراعظم اور وزیرداخلہ گجراتی ہیں؟
اس ضمن میں باشعور شہریوں سے خواہش کی جاتی ہے کہ اس مسئلہ کو اٹھائیں تمام معلومات کمشنر میونسپل کارپوریشن سے بذریعہ (RTI)حاصل کریں اور ایک (PIL) ہائیکورٹ میں پیش کریں تاکہ یہ قیمتی اراضی عوامی مفادات کے لئے استعمال میں لائی جاسکے اور چند ٹکہ کے کرایہ داروں کو بے دخل کرکے ان سے بھاری کرایہ کے بقایہ جات حاصل کئے جاسکیں۔
اس ضمن میں ذیل میں رقم الحروف سے ربط قائم کیاجاسکتا ہے۔ تاکہ معلومات حاصل کرنے میں سہولت ہوسکے۔
ہیلپ لائن 04-23535273 – 9908850090
اس بات کو نوٹ کرنے کی ضرورت ہے
اس بات کو نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ قلب شہر میں کوئی شخص کئی ایکر اراضی کا مالک نہیں ہوسکتا کیوں کہ اربن لینڈ سیلنگ قانون کی روشنی میں زیادہ سے زیادہ ایک ہزار مربع میٹر حدِ اراضی ہے۔ دوسری جانب اس وسیع و عریض اراضی کی مالک حکومت ہے۔ حکومت اس قیمتی اراضی سے محروم ہوسکتی ہے اگر یہ ٹمبر لابی قانونِ قبضۂ مخالفانہ کو روبعمل لاکر عدالت میں دعویٰ کرکے ملکیت حاصل کرسکتی ہے کیوں کہ حکومتی اراضی پر قبضہ مخالفانہ کی مدت 30سال ہے جبکہ پرائیوٹ اراضی کے لئے12سال مدت ہے۔ اس بات کو جاننے کی ضرورت ہے کہ میونسپل کارپوریشن نے کرایہ کا (Revision) کیا ہے یا نہیں۔ اصولی طور پر کرایہ کی اساس فی مربع فٹ ہوتی ہے جبکہ قبضہ کیا ہوا رقبہ ایکرس میں ہے۔ اگر آپ کسی دوکان کے گیٹ کے سامنے کھڑے ہوکر نظر ڈالیں تو حدنظر تک ساگوان اور دیگر لکڑیوں کے انبار نظر آئیں گے۔ یہ صرف میونسپل کارپوریشن اور ریوینیو اسٹیٹ عہدیداروں کی بے عملی اور نکمے پن کی وجہ سے ہی ہورہا ہے اور ہوتا ہی جارہا ہے۔ اگر یہ پرائیوٹ اراضی ہوتی تو یہ گجراتی طبقہ اس پر بڑی بڑی عمارتیں ‘ دواخانے اور کمرشیل کامپلکس تعمیر کرکے کروڑوں اربوں روپیہ کماتا۔اب عمل کی ضرورت ہے۔ فوری طور پر باشعور شہریوں کو کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔