[]
مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، عالمی یوم القدس کی مناسبت سے لبنان میں حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے اپنے خطاب میں تاکید کی کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی امام خمینی نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم قدس قرار دیا تھا اور اس موقف کا بین الاقوامی تعلقات پر خاصا اثر پڑا ہے۔ انقلاب سے پہلے شاہی حکومت کے اسرائیل کے ساتھ تزویراتی تعلقات تھے اور تہران میں اسرائیلی سفارت خانہ تہران کے سفارت خانوں میں سب سے اہم تھا لیکن ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد سے اس کی جگہ فلسطینی سفارت خانہ بن گیا۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے مزید کہا کہ امام خامنہ ای بھی ہر موقع پر اسی موقف کا اعادہ کیا ہے صہیونی حکومت سے دشمنی سیاسی نظریات اور رجحانات سے بالاتر ہے۔ ایران نے اس حوالے سے سیاسی، اقتصادی اور اجتماعی حوالے سے بہت قیمت ادا کی ہے۔ حال ہی میں جنرل زاہدی کو شام میں شہید کیا گیا۔ ایران نے امریکہ کے ساتھ حساس معاملات میں بھی براہ راست مذاکرات سے انکار کیا ہے۔ سابق صدر ٹرمپ نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا اعلان کیا تھا تاہم ایرانی امریکی فریب میں نہیں آئے۔
انہوں نے کہا کہ بعض افراد مضحکہ خیز تبصرہ کرتے ہیں کہ خطے پر اجارہ داری برقرار رکھنے کے لیے ایران اور امریکہ کھیل کھیل رہے ہیں چنانچہ 2006 کے واقعات کو بھی اس سے ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایران اپنی معیشت اور کرنسی کو اس کھیل میں کیسے داؤ پر لگاسکتا ہے۔ اسرائیلی بندرگاہ کی بندش اور بحیرہ احمر کے واقعات کا اس سے کیسے رابطہ ہوسکتا ہے۔ ایران نے خطے میں امریکہ اور صیہونی حکومت کے بہت سے توسیع پسندانہ منصوبوں کو ناکام بنادیا۔ خطے میں مزاحمتی گروہوں کی پوزیشن کو مستحکم اور مضبوط کیا ہے اور اس راہ میں شہید قاسم سلیمانی جیسے عزیز ترین افراد کو قربان کیا ہے۔
انہوں نے ایرانی سفارت خانے پر حملے کے حوالے سے کہا کہ اگر ایران اس حوالے سے اپنا موقف بدلتا تو پہلے ہی کرچکا ہوتا۔ آج ایران بھر میں عوام نے امام خمینی اور رہبر معظم کی پیروی کا ثبوت دیا ہے۔ ایران کی پشت پناہی میں فعال گروہوں کو مطمئن ہونا چاہیے کہ یہ قلعہ مستحکم رہے گا۔ ایران کے ساتھ تعلقات اور دوستی ہمارے لئے مایہ افتخار ہے۔ اس حوالے سے ان ممالک اور حکومتوں کو شرم آنا چاہئے جو خطے میں بے انتہاء جرائم کے باوجود امریکہ کے ساتھ تعلقات بڑھانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ طوفان الاقصی نے صہیونی حکومت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ اگر امریکہ مدد کرنے نہ آتا تو اسرائیل نابود ہوچکا ہوتا۔ امریکی اور اسرائیلی بھی اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں۔