نائجیر میں بحران کی وجوہات، فوجی بغاوت استعمار کا تحفہ

[]

مہر خبررساں ایجنسی-بین الاقوامی ڈیسک؛ افوریقی ملک نائجیر میں فوجی بغاوت اور فوجی افسران کے ذریعے صدر مملکت محمد بازوم کی گرفتاری سے عالمی برادری کی توجہ ایک بار پھر افریقہ پر مرکوز ہوگئی ہے۔ فوجی افسران نے اعلان کیا تھا کہ نائجیر کا آئین معطل اور بازوم کی سیاسی حکومت ختم ہوچکی ہے۔ فوج کے اعلی افسر جنرل امادو عبدالرحمن نے مزید نو افسران کو اپنے ساتھ ملالیا ہے۔

یاد رہے کہ صدر محمد بازوم مغربی ممالک کے قریبی حکمران کے طور پر مشہور ہیں۔ اسی لئے امریکی وزیرخارجہ انتھونی بلینکن نے فوجی بغاوت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بازوم کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ صدر کے خلاف بغاوت کے بعد عالمی برادری نے فوج کی شدید مذمت کی اور ملک میں فوری طور پر جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ شروع کیا۔ اسی طرح افریقی اتحاد، مغربی اور افریقی ممالک کی اقتصادی تنظیم نے نائجیر کی رکنیت معطل کردی اور سفارتی دباو بڑھانا شروع کیا تاکہ فوجی افسران کو بغاوت سے روکا جائے۔

افریقی اتحاد نے فوجی بغاوت کی مذمت کرتے ہوئے نائجیر کے عوام سے اپیل کی کہ فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کریں۔ اقوام متحدہ کے سربراہ انتونی گوتریش نے طاقت کے زور پر اقتدار پر قبضے کی کوشش کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ نائجیر کے آئین کا احترام کیا جائے۔ اسی طرح فرانس اور الجزائر سمیت دوسرے ممالک نے فوجی بغاوت کی مذمت کی۔

دارالحکومت نیامی میں صدر بازوم کے حامی شہریوں اور فوجی اہلکاروں نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج  کیا لیکن بغاوت کے حامی فوجی سپاہیوں نے فائرنگ کرکے مظاہرین کو منتشر کردیا۔

بغاوت کی سربراہی کرنے والے فوجی افسر نے حکومت کا تختہ الٹنے کے بارے میں کہا کہ کمزور حکومت کی وجہ سے افریقہ میں نائجیر کی سیکورٹی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ اقتصادی اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آیا ہے اور عوام کو حکومت میں شامل نہیں کیا جارہا ہے۔

جنرل امادو عبدالرحمن کے دعووں کے باوجود کہا جارہا ہے کہ گذشتہ 8 سالوں کے دوران مالی اور نائجیریا کی سرحدوں سے ملک میں داخل ہونے والی مسلح تنظیموں کے طاقتور ہونے کی وجہ سے ہر تنظیم ملک پر اپنی اجارہ داری چاہتی ہے۔ یہ تنظیمیں کسی نہ کسی طرح القاعدہ اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہیں۔

بغاوت کی قیادت کرنے والے فوجی افسران نے حکومتی اداروں کی فعالیت بند کردی ہے۔ قرار پایا ہے کہ مخصوص افراد کو سرپرست کے طور پر اداروں میں تعیینات کیا جائے گا۔ ان افسران نے بیرونی ممالک سے اپیل کی ہے کہ نائجیر کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔ بغاوت کے بعد نائجیر کی زمینی اور فضائی سرحدین بند کردی گئی ہیں۔ شہروں میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے رات دس بجے سے صبح پانچ بجے تک شہریوں کو گھروں سے نکلنے سے منع کیا گیا ہے۔

باغی افسران کے ترجمان کے مطابق قومی کونسل کے نام سے ایک ادارہ ملک کا کنٹرول سنبھالے گا لیکن انتقال اقتدار کے بارے میں تفصلات ابھی تک جاری نہیں کی گئی ہیں۔

قابل ذکر بات ہے کہ نائجیر کے ہمسایہ تینوں ممالک چاڈ، مالی اور بورکینافاسو میں بھی فوجی غاوتیں ہوچکی ہیں۔ لیبیا بھی ہمسایہ ملک شمار ہوتا ہے جہاں ابھی تک حالات غیر مستحکم ہیں۔ نائجیر اور نائجیریا ایک دوسرے سے مشابہ نام رکھتے ہیں لیکن دونوں الگ الگ ملک کے نام ہیں۔

نائیجیریا کی آبادی 225 ملین ہے۔ سمندر سے متصل ہونے کی وجہ سے نائجیریا افریقہ کا اقتصادی طاقت اور روشن مستقبل کا حامل ملک ہے جبکہ نائجیر کی آبادی 25 ملین اور خشکی میں گھرا ہوا ملک ہے جس کی وجہ سے اقتصادی اور معاشی حالات نازک ہیں۔ نائجیر غربت کے لحاظ سے دنیا کا غریب ترین ملک ہے۔ تعلیم اور صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر اور شہروں اور قصبوں میں بنیادی انفراسٹرکچر کمزور ہے۔ خشکسالی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ملک کو بحران کا سامنا ہے۔

نائجیر ماضی میں بھی فوجی بغاوت کا تجربہ کرچکا ہے۔ فوجی مداخلت اور انتقال اقتدار کا ناہموار نظام سیاسی عدم استحکام کا باعث بن رہا ہے۔ کمزور حکمرانی، اقتصادی مشکلات اور تنازعات کی وجہ سے ملک میں سیاسی حکومت کو دوام نہیں مل رہا ہے۔ صدر بازوم کے پیشرو محمدو ایسوفو کے دور میں سیاسی کشیدگی عروج پر تھی۔

ایسوفو 2011 میں برسراقتدار آنے کے بعد اصلاحات اور استحکام پیدا کرنا چاہتے تھے لیکن ان کی حکومت سے بھی عوام نالاں رہے اور ان کے مخالفین ان پر کمزور حکمرانی اور کرپشن کے الزامات لگاتے تھے۔ محمد بازوم بھی ایسوفو کی حمایت سے 2020 میں صدارتی انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے جس کی وجہ سے ایسوفو کے مخالفین قدرتی طور پر بازوم کے بھی مخالف ہوگئے اور ان پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگاتے تھے۔

حالیہ سالوں میں شدت پسندوں نے اپنی سرگرمیوں کے ذریعے مغربی ممالک کو اس براعظم میں دوبارہ مداخلت کا موقع فراہم کیا۔ فرانس کا شمار ان استعماری ممالک میں ہوتا ہے جس نے ماضی میں افریقہ میں جرائم اور استحصال کے متعدد تجربات انجام دیئے۔

ہمسایہ ممالک مالی اور بورکینافاسو میں بھی ماضی میں فوجی بغاوتیں ہوچکی ہیں۔ فوجی افسران نے شدت پسند تنظیموں سے رابطے میں رہتے ہوئے سرگرمیاں انجام دیں۔ اسی بہانے سے فرانس نے فوجی مداخلت کی۔ نائجیر ماضی میں فرانس کے قبضے میں رہ چکا ہے اس لیے موجودہ حالات کو بہانہ بناتے ہوئے پیرس نائجیر میں مداخلت کا موقع تلاش کررہا ہے۔ البتہ فرانس میں صدر میکرون کو اقتصادی اور سیکورٹی حوالے سے درپیش بحرانی حالات کے پیش نظر ان کی جانب سے ایسے اقدامات بعید لگتے ہیں۔

اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ افریقہ فوجی بغاوت کا براعظم ہے کیونکہ گذشتہ چھے دہائیوں کے دوران اس براعظم میں تقریبا 100 فوجی بغاوتیں ہوچکی ہیں۔ سیاسی جماعتوں سے فوجی اداروں کو فوری انتقال اقتدار کا پہلا واقعہ 1962 میں ٹوگو میں پیش آیا۔ اس کے فورا بعد 1974 میں ایتھوپیا میں بغاوت کا واقعہ پیش آیا۔ مرکزی افریقہ، تیونس اور زایر بھی ان ممالک میں شمار ہوتے ہیں جہاں فوجی بغاوت کے واقعات جنم لے چکے ہیں۔ ان ممالک کے بعد ماڈغاسکر، مالی، آئیوری کوسٹ اور دوسرے ممالک میں بھی سیاسی حکومتوں کو فوجیوں نے برطرف کردیا ہے۔

سوڈان میں 15 مرتبہ، برونڈی میں 11 مرتبہ، بورکینافاسو میں 11 مرتبہ فوجی اہلکاروں نے بغاوت کی کوشش کی ہے۔ لیبیا، گینی، چاڈ اور دوسرے بعض ممالک میں بھی فوجی بغاوتیں ہوچکی ہیں۔ بین الاقوامی ماہرین اور افریقی امور پر تحقیق کرنے والوں نے افریقہ میں فوجی بغاوت کی دو اہم وجوہات بیان کی ہیں۔

1۔ مغربی استعمار نے بغاوت کی بیج بودی ہے اور مغربی طاقتیں ہمیشہ اپنے آلہ کاروں کو برسراقتدار لانے کی کوشش کرتی ہیں۔

2۔ سرد جنگ کے دوران عالمی طاقتوں کے درمیان رقابت کے اثرات 

اگرچہ چند عشرے قبل سرد جنگ اختتام پذیر ہوچکی ہے لیکن اس کے اثرات اب بھی موجود ہیں اور افریقہ پر نمایاں اثر مرتب ہورہا ہے۔ البتہ افریقی ممالک میں ہونے والی بغاوتوں کی واحد وجہ غیر ملکی مداخلت نہیں ہے بلکہ داخلی اور اندرونی عوامل میں اس میں موثر ہیں۔

چنانچہ کہا گیا کہ مغربی استعمار نے بغاوت کو افریقی ممالک کے لئے ارث میں چھوڑا ہے۔ آزادی کے بعد بھی استعمار اپنی ترقی یافتہ حالت میں فعال ہے۔ بہت سارے افریقی ممالک کی طرف سے سیاسی استحکام کی کوششوں کے باوجود مغربی ممالک آج بھی اجتماعی اور اقتصادی طور پر افریقی ممالک کے لئے مشکلات ایجاد کرکے عدم استحکام کا شکار اور طاقت کا خلا ایجاد کرنا چاہتے ہیں۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *