[]
نئی دہلی: گیان واپی مسجد معاملہ میں سپریم کورٹ کا فیصلہ حیرت انگیز اور افسوسناک ہے۔ توقع کی جارہی تھی کہ چیف جسٹس، جسٹس چندر چو ڑ والی بنچ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ پر عبادت گاہوں سے متعلق قانون کی روشنی میں روک لگادے گی تاہم عدالت نے اس کے برعکس فیصلہ دیا جو انتہائی افسوسناک اور مایوس کن ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلمانوں کو اس سے سخت مایوسی ہوئی ہے۔اندیشہ ہے کہ اب عبادت گاہوں سے متعلق قانون کی خلاف ورزیوں کا دروازہ کھل جائے گا۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے جاری ایک پریس بیان میں دعوی کیا ہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ یکطرفہ اور جانبدارانہ تھا اور توقع تھی کہ عبادت گاہوں سے متعلق قانون کی روشنی میں عدالت عظمیٰ اس پر روک لگادے گی تاہم ایسا نہیں ہوا۔
عبادت گاہوں سے متعلق قانون جس وقت لایا گیا تھا اس وقت پورے ملک کو یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ بابری مسجد تنازعہ کے بعد اب ہر نئے تنازعہ کا راستہ روکنے کے لئے یہ قانون لایا جارہا ہے۔
قانون میں بھی واضح طور پر کہا گیا تھا کہ 15 اگست 1947 کو جس عبادت گاہ کی جو حیثیت ہے وہ علی حالہ باقی رہے گی تاکہ ملک میں بھائی چارہ و امن و سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو تاہم اگر اسی طرح کے فیصلہ آتے رہیں گے تو اندیشہ ہے کہ یہ قانون پوری طرح سے بے معنی ہوکر رہ جائے گا اور پورا ملک نئے نئے تنازعات اورجھگڑوں کی آماجگاہ بن جائے گا۔
انہوں نے آگے کہا کہ بابری مسجد کے مقام پر بھی محکمہ آثار قدیمہ کے ذریعے جو سروے کیا گیا تھا اس میں بھی مندر کے ستونوں کے نشان نکال لئے گئے تھے تاہم سپریم کورٹ نے اپنے حتمی فیصلہ میں یہ واضح کردیا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی اور اسکا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ جو چند معمولی چیزیں ملی بھی وہ بھی بابری مسجد سے چار سو سال قبل کی ہیں –
بور ڈ کے ترجمان نے آگے کہا کہ اس سے قبل جس ایک سروے میں حوض کے فوارہ کو شیو لنگ بتاکر وہاں پہرہ بٹھادیا گیا اور وضو پر پابندی لگادی گئی تھی اندیشہ ہے کہ نام نہاد سائنٹفک سروے کے ذریعہ مسجد کے نیچے کوئی مندر یا اس کے آثار نکال لئے جائیں گے اور پھر نماز پر بھی پابندی عائدکردی جائے۔
نچلی عدالت بار بار یہ کہہ رہی ہے کہ مقصد مسجد کے ڈھانچہ کو نقصان پہنچانا نہیں ہے بلکہ یہ جاننا ہے کہ مسجد کے نیچے کیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کی ضرورت کیا ہے؟ ۔
بورڈ کو اندیشہ ہے کہ یہ فیصلہ نت نئے تنازعوں کے لئے راستہ ہموار کرے گا، حالانکہ اسی کو روکنے کے لئے پارلیمنٹ نے یہ قانون وضع کیا تھا۔ کیا عدالت عظمی قانون کی اس بے حرمتی کو روک پائے گی۔