[]
اسرائلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے مطابق امریکی پوزیشن میں تبدیلی نے جنگ اور یرغمالیوں کی رہائی کی کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے۔
جنگ کے آغاز کے تقریباً چھ ماہ بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پہلی بار غزہ پٹی میں ’فوری جنگ بندی‘ کا مطالبہ کیا ہے۔ ویٹو پاور امریکہ نے اس ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اور اسی وجہ سے یہ قرارداد منظور ہو سکی۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پیر پچیس مارچ کے روز اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے درمیان فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر دیا۔ امریکہ کی جانب سے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا گیا۔ اس قرارداد میں تمام مغویوں کی بھی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
پندرہ رکنی سلامتی کونسل کے باقی 14 اراکین نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، جسے سلامتی کونسل کے دس منتخب اراکین نے تجویز کیا تھا۔ امریکہ آج تک غزہ پٹی میں جنگ بندی سے متعلق قرارداد کے متن میں ‘جنگ بندی‘ کے الفاظ کے استعمال کے خلاف تھا اور اس نے اپنے اتحادی ملک اسرائیل کی حمایت میں ماضی میں اپنی ویٹو پاور کا استعمال بھی کیا تھا۔ لیکن عالمی سطح پر جنگ بندی کے لیے دباؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج کی ووٹنگ میں امریکہ قرارداد کو ویٹو کرنے کی بجائے غیر حاضر رہا۔
سلامتی کونسل کی قرارداد میں ”پوری غزہ پٹی میں شہریوں کے تحفظ کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد کے بہاؤ کو بڑھانےکے ساتھ ساتھ اس کو تقویت دینے کی فوری ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے جبکہ بڑے پیمانے پر انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کے مطالبے کا بھی اعادہ کیا گیا ہے۔‘‘
اسرائیلی فوج کے ریڈیو نے سلامتی کونسل کا اجلاس شروع ہونے سے کچھ ہی دیر قبل اطلاع دی تھی کہ اگر امریکہ نے یہ قرارداد ویٹو نہ کی تو اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اپنا واشنگٹن کا طے شدہ دورہ منسوخ کر دیں گے۔ امریکہ ابھی تک غزہ کی جنگ کے حوالے سے سلامتی کونسل کی تین قراردادوں کو مسترد کر چکا ہے۔ تاہم امریکہ ان دو قراردادوں میں غیر حاضر رہا، جن میں غزہ کے لیے امداد کو بڑھانے اور جنگ بندی کے وقفے میں توسیع کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
اسرائیل کا ردعمل
سلامتی کونسل کی طرف سے ”رمضان فائر بندی‘‘ کی قرارداد کی منظوری کے فوراً بعد اسرائیل نے اپنے ایک اعلیٰ سطحی وفد کو امریکہ بھیجنے کا منصوبہ منسوخ کر دیا ہے۔ وزیر اعظم نیتن یاہو کے مطابق امریکی پوزیشن میں تبدیلی نے جنگ اور یرغمالیوں کی رہائی کی کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے۔
دریں اثنا امریکہ نے کہا ہے کہ اسرائیل کے حوالے سے امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ امریکہ نے یہ بھی کہا ہے، ”غزہ میں جنگ بندی صرف اسی صورت شروع ہو سکتی ہے اگر حماس یرغمالیوں کی رہائی شروع کرے۔‘‘ دوسری جانب فرانس نے مطالبہ کیا ہے کہ سلامتی کونسل کی طرف سے منظور کردہ ”رمضان فائر بندی‘‘ کی قرارداد کو مستقل جنگ بندی میں تبدیل ہونا چاہیے۔
قبل ازیں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے بھی پیر کے روز کہا تھا کہ اسرائیل کو فائر بندی کی ضرورت کے بارے میں بتانے کے لیے بین الاقوامی اتفاق رائے بڑھ رہا ہے جبکہ رفح پر اسرائیلی حملہ وسیع تر انسانی تباہی کا سبب بنے گا۔ رفح کا علاقہ مصر کے ساتھ غزہ پٹی کی جنوبی سرحد پر دس لاکھ سے زائد فلسطینیوں کی آخری پناہ گاہ ہے اور یہ بھی ان علاقوں میں شامل تھا، جو اسرائیل کے تازہ ترین حملوں کی زد میں آئے ہیں۔
اسرائیل کی جنگی کارروائیاں جاری
فلسطینی طبی حکام کا کہنا ہے کہ رفح میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 30 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ حالیہ چند ماہ کے دوران رفح کی آبادی میں لاکھوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے کیوں کہ غزہ کے باقی حصوں سے بے گھر ہو کر آنے والے لاکھوں فلسطینی اس علاقے میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
سات بچوں کے والد ابو خالد کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”رفح میں ہونے والی ہر بمباری کے بعد ہمیں یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ ٹینک یہاں داخل ہونے والے ہیں۔ گزشتہ 24 گھنٹے ہمارے رفح میں منتقل ہونے کے بعد کے بدترین دنوں میں سے تھے۔‘‘ ابوخالد کا ایک چیٹ ایپ کے ذریعے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہنا تھا، ”رفح میں ہم خوف میں رہتے ہیں، ہم بھوکے ہیں، ہم بے گھر ہیں اور ہمارا مستقبل نامعلوم ہے۔ اگر جنگ بندی نہ ہوئی تو ہم مارے جائیں گے یا پھر ہم شمال یا پھر جنوب (مصر) کی طرف دوبارہ بے گھر ہو سکتے ہیں۔‘‘
ہسپتالوں کے اردگرد لڑائی
فلسطینی عینی شاہدین کے مطابق اسرائیلی فورسز نے جنوبی شہر خان یونس میں الامل اور ناصر ہسپتالوں کا بھی محاصرہ کر لیا ہے۔ ایک ہفتہ قبل اسرائیلی فورسز غزہ شہر کے الشفاء ہسپتال میں بھی داخل ہو گئی تھیں، جو اس پٹی کا مرکزی ہسپتال ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس غزہ کے ہسپتالوں کو اپنے اڈوں کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ حماس اور طبی عملے نے اس اسرائیلی دعوے کی تردید کی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ آیا تازہ حملوں کے دوران ہلاک ہونے والوں میں کوئی جنگجو بھی شامل تھا۔
بین الاقوامی اتفاق رائے میں اضافہ
غزہ میں محکمہ صحت کے مطابق اسرائیل کی جنگی کارروائیوں کے نتیجے میں اس فلسطینی علاقے میں اب تک 32 ہزار سے زائد افراد ہلاک اور 74 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ اسرائیل نے اپنی فوجی مہم اس وقت شروع کی تھی، جب حماس کے عسکریت پسندوں نے سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں ایک حملہ کرتے ہوئے تقریباﹰ 1150 اسرائیلیوں کو ہلاک اور 253 کو اغوا کر لیا تھا۔
قطر اور مصر کی طرف سے امریکی حمایت یافتہ ثالثی اب تک اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی میں ناکام رہی ہے۔ اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کے تبادلے اور غزہ کے شہریوں کو امداد کی بلا روک ٹوک فراہمی کے بارے دونوں میں سے ہر فریق ابھی تک اپنے بنیادی مطالبات پر قائم ہے۔