حیدرآباد میں زعفرانی تنظیموں کے زہر سے معصوم ذہن آلودہ۔ ہم ’حلال‘ چیزیں نہیں کھاتے : طالب علم

[]

حیدرآباد: ملک میں جیسے جیسے تعلیم کو فروغ حاصل ہو رہا ہے ویسے اخلاقی تنز میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ حالیہ عرصہ میں زعفرانی تنظیموں کی جانب سے پھیلائے گئے زہر کے اثرات اب کمسن طلبہ میں ظاہر ہونے لگے ہیں۔

گنگا جمنی تہذیب کے لئے مشہور شہر حیدرآباد میں گزشتہ دنوں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس کو دیکھتے ہوئے ذہن سوچنے پر مجبور ہو رہا ہے کہ آیا ملک کا مستقبل روشن ہے یا تاریکی کی سمت گامزن ہے۔

ایک واقعہ میں بنجارہ ہلز کے ایک اسکول میں جماعت چہارم کے طلباء کے ایک گروپ نے اپنے مسلمان ہم جماعت ساتھی کی طرف سے پیش کردہ چاکلیٹ کھانے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ وہ ‘حلال’ چیزیں نہیں کھاتے ہیں۔

اس واقعہ کو بچہ کے والدین نے سوشل میڈیا پر بیان کیا اور دعویٰ کیا کہ ان کے بچے کو ایک اضافی چاکلیٹ اس وقت ملی جب دوسرے بچوں نے مسلم ساتھی کی جانب سے پیش کے گئے چاکلیٹ کو کھانے سے انکار کر دیا۔

ایک والد نے سوشل میڈیا پر تحریر کیا”میرا سب سے چھوٹا بیٹا حیدرآباد کے بنجارہ ہلز میں ایک اسکول میں ’گریڈ فور‘ میں زیر تعلیم ہے۔ اس کے زیادہ تر ہم جماعت مارواڑی اور سندھی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اورچند مسلمان ہیں۔

میرا بیٹا آج جب گھر آیا تو اس نے ہمیں بتایا کہ اس نے چھ چاکلیٹ کھائی ہیں“۔ سی اے اجمل محی الدین نامی شخص نے فیس بک پوسٹ میں لکھا۔ محی الدین کے مطابق یہ واقعہ 20 مارچ کو پیش آیا۔

دریافت کرنے پر ان کے بیٹے نے جواب دیا کہ یہ ایک (مسلم) ہم جماعت ساتھی کی آج سالگرہ تھی اور اس نے کلاس میں تقسیم کرنے کے لئے چاکلیٹ لے کر آیا تھا اور اس نے مجھے چار اضافی چاکلیٹ دی کیونکہ اس کے تین سے چار دیگرساتھیوں نے وہ چاکلیٹ لینے سے انکار کر دیا تھا۔

میں نے اپنے فرزند سے تجسس آمیز لہجہ میں پوچھا کہ اتنے چھوٹے لڑکے چاکلیٹ لینے سے کیسے انکار کر سکتے ہیں۔ اس نے مجھے بتایا کہ ان لڑکوں نے کہا کہ وہ چاکلیٹ ’حلال‘ ہیں اس لیے وہ انہیں نہیں کھا سکتے۔ جب میں نے اپنے لڑکے سے سوال کیا کہ وہ چاکلیٹ کون سی ہیں تو بیٹے نے جواب دیا کہ یہ کیڈبری کی ہیں۔

مجھے تب معلوم ہوا کہ ان لڑکوں اور لڑکیوں نے ایک لڑکے سے صرف اس لئے چاکلیٹ لینے سے انکار کر دیا کہ وہ مسلمان تھا اور انہیں گھر میں کہا گیا ہے کہ وہ مسلمان کی دی ہوئی کوئی چیز نہ کھائیں۔

میں نے اس واقعہ کے بعد کلاس ٹیچر کو فون کیا جو ایک عیسائی ہے اور اس نے میرے شک کی تصدیق کی اور یہ بھی کہا کہ وہ بچوں کو ان چاکلیٹس کو قبول کرنے پر مجبور نہیں کر سکتیں۔ اس واقعہ کو بہت سے لوگوں نے ’مذہبی امتیاز‘قرار دیتے ہوئے مذمت کی۔

محی الدین نے الزام لگایا کہ انہیں ’زہریلے مذہبی ٹرول‘کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ محی الدین نے کہا بہت سے لوگوں نے مجھے مشورہ دیا ہے کہ میں اپنی پوسٹس پر ان ’زہریلے ٹرول‘کو بلاک کروں تاہم میں ایسا کرنا نہیں چاہوں گا کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ دنیا کو معلوم ہو جائے کہ یہ پڑھے لکھے لوگ کتنے نفرت سے بھرے ہوئے ہیں اور نفرت کے زہر سے کمسن بچوں کے ذہنوں کو پراگندہ کر رہے ہیں۔



ہمیں فالو کریں


Google News



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *