[]
حمید عادل
’’ جی ہاں ! میں ہوں تو بانڈ… لیکن وہ بانڈ نہیں جو اپنی غیر معمولی پھرتی اورذہانت سے دشمن کے دانت کھٹے کردیتا ہے…میں تو محض کاغذ کا ایک بے جان ٹکڑا ہوں البتہ اس بانڈ اور مجھ(الکٹرول بانڈ) میں مماثلت یہ ہے کہ جیمس بانڈ برطانیہ کا افسانوی خفیہ ایجنٹ تھا تو میںہندوستانی حکومت کاایک ایسا حقیقی خفیہ ایجنٹ رہاہوں جوبرسراقتدار جماعت کو چپکے چپکے زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے پر مجبور کردیا گیا…حکومت کا مجھ پر اس قدر کنٹرول تھا کہ میری مدت ختم ہونے کے باوجود مجھے بھنایا گیا ۔جی ہاں!2019ء میں مودی حکومت نے ایس بی آئی کو حکم دیا تھا کہ وہ ایکسپائر بانڈس کو بھی قبول کرے …حالانکہ قانون کے مطابق اس کی اجازت نہیں تھی، یہ سب کچھ منی لانڈرنگ قانون کے خلاف تھالیکن حکومت نے اپنے فائدے کے لیے قانون توڑ کر مجھے رقم میں تبدیل کیا گیا …
مجھ (الکٹرول بانڈ)کو متعارف کرانے کا مقصد یہ تھا کہ ملک کی سیاست میں استعمال ہونے والی غیر قانونی دولت کا راستہ روکا جا سکے،جس کے تحت ہندوستان کا کوئی بھی شہری یا کمپنی سال کے مخصوص دنوں میں الکٹرول بانڈس خرید کر اپنی پسند کی سیاسی جماعت ( جس نے قومی یا ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں ایک فیصد سے کم ووٹ نہ حاصل کیے ہوں)کی مالی مدد کر تے اور مذکورہ سیاسی جماعت 15 دن کے اندر یہ رقم کسی بھی سرکاری بینک سے نکلوا سکتی تھی …
سابق وزیرقانون آنجہانی ارون جیٹلی میرے( الکٹرول بانڈ) جنم داتاؤں میں سے تھے، جب کہ مجھے پروان چڑھانے میں مودی جی کا بڑا ہاتھ اور ساتھ رہا لیکن اب وہ ’’ مطلب نکل گیا تو پہچانتے نہیں،یوں جارہے ہیں جیسے ہمیں جانتے نہیں ‘‘کی تصویر بنے بیٹھے ہیں… گذشتہ کئی مہینوں سے مجھ کو لے کر ہنگامہ برپا ہے لیکن مجال ہے کہ مودی جی اپنا منہ کھولیں… مودی جی Manipurپرنہیںبولے تو ’’ Money‘‘پر کیا بولیں گے،البتہ وہ Manipulateضرور کرسکتے ہیں….خیر!میں اس بات کوبخوبی سمجھ چکا ہوں کہ میرا وجود ہی ناجائز تھا ، مجھے پیدا صرف اور صرف اپنے مفاد کے لیے کیا گیا تھا …مجھے فلم ’’ زندگی اور طوفان ‘‘کا سورگیہ مکیش کا گایا ہوانغمہ ’’ زندگی اور بتا تیرا ارادہ کیا ہے ؟‘‘کا مکھڑا یاد آرہا ہے، جس میں وہ کہتے ہیں ’’ مجھ کو پیدا کیا سنسار میں دو لاشوں نے اور برباد کیا قوم کے عیاشوں نے ‘‘…برا ہو گودی میڈیا کا جو میرا نام تک نہیں لینا نہیں چاہتا، حد تو یہ کہ کانگریس نے مجھ (الکٹرول بانڈ) سے متعلق اشتہار دے کر بی جے پی کو طشت از بام کرنا چاہا تو معروف اخبارات نے اشتہار شائع کرنے سے تک انکار کردیا… بیچارے ! حکومت کی گودی میں جو بیٹھے ہیں ، تبھی تو ایسا میڈیا گودی میڈیا کہلاتا ہے …
میرے (الکٹرول بانڈکے) پیچھے کھیلے گئے کھیل کو چھپانے کی ایس بی آئی نے ہر ممکن کوشش کی لیکن قانون کے لمبیہاتھ، ہاتھ دھوکر سی بی آئی کی طرح ایس بی آئی کے پیچھے پڑگئے…سپریم کورٹ کا مسلسل اصرار رہا کہ تمہیںبتانا ہی ہوگا کہ کس نے کتنے بانڈ خریدے اور اس سے کس سیاسی جماعت کوکتنا فائدہ ہوا… ایس بی آئی اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لیے عدالت میں بار بار ذلیل ہوتا رہا اور بالآخر اسے ساری تفصیلات بتانی ہی پڑی…ورنہ بینک کہہ رہا تھاکہ وہ میرے (بانڈس) سے متعلق تفصیلات عدالت میں جون 2024ء سے پہلے پیش کرنے سے قاصر ہے …مقصد یہی تھا کہ ملک میں لوک سبھا انتخابات ہوجائیں ،نتائج آجائیں اور لوگ اس دوران جان ہی نہ سکیں کہ کس کو کتنا فنڈ ملا ! ایس بی آئی نے مجھ (الکٹرول بانڈ )سے جڑی ضروری تفصیلات سپریم کورٹ میں داخل کرتے ہوئے بڑی بے بسی سے کہا کہ اب بانڈس سے متعلق ہمارے پاس مزید کوئی معلومات نہیں ہیں …یہ ایسا ہی تھا جیسے پولیس کسی مشتبہ شخص کو گرفتار کرتی ہے، لیکن وہ پولیس سے تعاون نہیں کرتالیکن جب اس کی دھلائی ہوتی ہے تب وہ ساری تفصیلات اگل دیتا ہے اور قسم کھا کھاکر کہتا ہے کہ: میں اس سے زیادہ کچھ اورنہیں جانتا، مجھے جانے دو… میری اس بات پریقینا پلک جھپکتے کئی ایک ہندی فلمی مناظرآپ کی نگاہوں میں گھوم گئے ہوں گے …
آج ملک بڑے برے حالات سے گزررہا ہے ، بی جے پی کی غلط پالیسیوں کے خلاف جو بھی ایماندار شخص آواز اٹھاتا ہے وہ ملک کا غدار کہلاتا ہے …اسے طرح طرح سے ستایا جاتا ہے، اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا جاتا ہے ،لیکن میں (الکٹرول بانڈ)جو سچ ہے ، وہ آج کہہ کر رہوں گا،کوئی میرا بھلا کیا بگاڑ سکتا ہے ،جتنا بگاڑنا تھا بگاڑ چکے … نریندر مودی کے بیشتر فیصلے بنا سوچے سمجھے کیے گئے فیصلے تھے، انہوں نے وزیراعظم بنتے ہی نعرہ دیا کہ ’’ نہ کھاؤں گا، نہ کھانے دوںگا‘‘لیکن کیا ایسا ممکن ہوسکا؟ہرگز نہیں… 2016 میں انہوں نے اچانک ایک دن نوٹ بندی کا اعلان کردیا، ان کے اعلان نے 500 اور 1000 روپے کے تمام پرانے نوٹ منسوخ کر دیے گئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ جن کے پاس کالا دھن نہیں ہے انہیں ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ سب کا خیال تھا کہ اب سارا کالا دھن باہرنکل آئے گا، چوری کی ساری رقم اب پکڑی جائے گی۔ لیکن ہوا یہ کہ تمام چھوٹے کاروبار بند ہو گئے اور بڑے صنعت کار امیر ہو گئے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد اس وقت کے وزیر خزانہ نے تجویز دی کہ انتخابی نظام کو شفاف بنایا جائے گا۔ اب تک تمام سیاسی جماعتیں نقد لین دین کرتی تھیں، اب ایک ’الکٹرول بانڈ‘ متعارف کرایا جا رہا ہے، جس کے ذریعے کسی کو معلوم نہیں ہوگا کہ ان سیاسی جماعتوں کو کون سپورٹ کر رہا ہے۔ اس لیے اس رقم کے بدلے فوائد حاصل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اپوزیشن کہنے لگی کہ اس سے رشوت کا چلن مزید بڑھے گا اس لیے اس نظام کو روکا جائے، کسی نے ان کی نہ سنی… معاملہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں چلا گیا،اس کے بعد 15 فروری 2024ء کو سپریم کورٹ نے ’’انتخابی بانڈس‘‘ کو غیر آئینی قرار دے ڈالا…
میری (الکٹرول بانڈ )بدولت بی جے پی کو سب سے زیادہ چندہ یعنی 8252کروڑ روپئے ملا لیکن وہ محض 6000کروڑ روپئے بتارہی ہے … یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ آزاد ہندوستان میں ’’ میں‘‘ (الیکٹرول بانڈ) سب سے بڑا سرکاری ’’اسپانسرڈ‘‘ کرپشن ثابت ہوا ہوں… مجھے کو خریدنے والوں کی چار قسمیں ہیں، پہلی قسم ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے مجھے خریدکر سرکاری عنایات دونوں ہاتھوں سے بٹوریں ، دوسری قسم میں وہ ہیں جنہوں نے جانچ ایجنسیوں کی دھمکی کی بدولت مجھے خریدا، تیسری قسم میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے مراعات پانے کے لیے رشوت کے روپ میں بانڈ خریدے اور چوتھی قسم میں وہ لوگ ہیں، جنہوں نے مکھوٹا کمپنیوں کے ذریعے خریداری کی…ایک کمپنی، فیوچر گیمنگ اینڈ ہوٹل سروسزکے مالک سینٹیا گو مارٹن نے محض سات دنوں میں 1368 کروڑ کے بانڈ خریدے… اس خریدی سے پہلے وہ ای ڈی اور سی بی آئی ایجنسی کے ہیڈکوارٹرس میں پائے گئے تھے۔ ایک اور کمپنی کا نام میگھا انجینئرنگ ہے، جس کی ٹی وی 9 سے شراکت داری ہے ،اس نے 980 کروڑ روپے کے بانڈز خریدے۔ میں(الکٹرول بانڈ)تو یہ دیکھ کر اپنی ہنسی روک نہیں پایا کہ کچھ کمپنیوں نے تو حدہی کر دی ہے، اپنی آمدنی سے زیادہ چندہ دے ڈالا…یہ کیسے ہوا؟ میں نہیں جانتا البتہ یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ کسی کا پیسہ ہو اورکسی اورکا نام ہورہا ہو …مجھے ( الکٹرول بانڈ) کو خریدنے والوں میں بیشتر ایسے ہیں جن پر پہلے انکم ٹیکس کے دھاوے ہوئے اورپھر انہوں نے مجھے خریدا… عطیہ دہندگان میں ایسی کمپنیاں بھی شامل ہیں جواپنی دواؤں کے لیے رسوا ہوچکی تھیں۔
بلاشبہ سیاست دانوں نے چندے کو دھندہ بنا ڈالااور میرے نام پر ’’ ہفتہ وصولی‘‘ وجود میں آگئی… راہول گاندھی نے حال ہی میں الکٹرول بانڈکو دنیا کا سب سے بڑا ’’جبراً وصولی ریاکٹ ‘‘بتاتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعے حاصل شدہ دولت کا استعمال سیاسی جماعتوں کو بانٹنے اور اپوزیشن جماعتوں کو گرانے کے لیے کیا گیا۔سدھیر مہتا کے ٹورینٹ گروپ نے2019 ء میں 185 کروڑ روپے کے بانڈس خریدے، مہاراشٹر کے اس وقت کے وزیر اعلی دیویندر فڈنویس نے کمپنی پر 285 کروڑ روپے کا پراپرٹی ٹیکس معاف کر دیاتھا…اِدھر فڈ نویس خوش کہ 185کروڑ روپئے کا عطیہ ملا اوراُدھر سدھیر مہتا خوش کہ 285کروڑ روپیوں کا پراپرٹی ٹیکس معاف ہوگیا… پھر بھی کہا جاتا ہے کہ بی جے پی ایک ایماندار پارٹی ہے، ان کے لیڈر بہت ایماندار ہیں…بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، مہاراشٹر میں ادھو ٹھاکرے کی حکومت گرانے کے لیے انہوں نے ایکناتھ شنڈے کے ارکان اسمبلی کو جو پیسہ دیا تھا وہ کہاں سے آیا؟ آپ نے یقینااڈانی اور امبانی کے نام تلاش کرنے کی کوشش کی ہو…لیکن ایسی کمپنیاں کبھی بھی براہ راست اپنے نام پر بانڈ نہیں خریدا کرتی ہیں۔ تاہم یہ ضرورہوسکتا ہے کہ ان کی تنظیم سے وابستہ دیگر لوگوں نے ذاتی طور پر یہ بانڈس خریدے ہوں۔
انتخابات کی آمد آمد ہے اور اس بار زیادہ تر میڈیا رائے عامہ دکھا رہاہے کہ کون سی پارٹی جیتے گی…ٹی وی 9 سمیت سبھی نیوز چینل بتا رہے ہیں کہ بی جے پی بھاری اکثریت سے الیکشن جیت رہی ہے.. . اس طرح کی معلومات سامنے آنے کے بعد جو بات میری (الکٹرول بانڈ) سمجھ میں آرہی ہے ،وہ یہ ہے کہ یہ رائے عامہ جاننے کے لیے نہیں بلکہ ایسی خبریں رائے عامہ بنانے کے لیے دکھائی جا رہی ہیں …. کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ اتنا بڑا بانڈ گھوٹالہ 2011 میں کانگریس کی بدعنوانی کی طرح ہر روز اخبارات کی بڑی بڑی سرخیاں کیوں نہیں بنا ؟ دراصل آج وہ لوگ جو صحافت کے نام پر کام کر رہے ہیں وہ دراصل بی جے پی کی حفاظت کر رہے ہیں … تو وہ کیا صحافی ہیں؟ یہ صحافی نہیں،غلام ہیں جو اپنے آقاؤں کے اشارے پر ناچ ناچ کرنفرت اور جعلی خبریں پھیلانے کا کام کرتے ہیں…
جی! کیا فرمایا آپ نے؟ وہ میڈیا جو ہر وقت نفرت اور جھوٹ پھیلاتا ہے، کہیں میرے ( الکٹرول بانڈ) کے پیسوں پر تو نہیںچل رہا ہے جسے بھتہ خوری کہتے ہیں؟اب میںآپ کے ایسے معصوم سوالوں کا کیا جواب دوں؟کچھ تو اپنے دماغ کا استعمال کیجیے…
’’حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں‘‘ کے مصداق چند سیاست دانوں کی ’’چندہ ہوس‘‘ کی بدولت آج میں کسی کو اپنا منہ دکھانے لائق نہیں رہا،میں الکٹرول بانڈ نہ رہ کر ایک ’’بھانڈ‘‘ بن چکا ہوں … بھانڈجوکبھی کسی کے راز کو راز نہیں رکھتا، میں نے بھی کسی کے راز کو راز نہیں رکھا…ویسے میں نے کچھ نہیں کیا، سب اپنے آپ ہوتا چلاگیا اور سفید پوش سیاست دانوں کی کالی کرتوتیں باہر آگئیں…بی جے پی نے سیاست دانوں کے ساتھ جو کھیل کھیلا،سو کھیلا لیکن ہائے! مجھے بھی نہیں بخشا… پارٹی نے مجھے اس قدر رسوا کردیا ہے کہ جیمس بانڈ کی طرح شان بے نیازی سے اب ’’ مائی نیم از بانڈ، الکٹرول بانڈ‘‘ بھی نہیں کہہ سکتا…
۰۰۰٭٭٭۰۰۰