[]
مہر خبررساں ایجنسی، دینی ڈیسک؛ رمضان المبارک کے تیرہویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں:اے معبود آج کے دن مجھ کو میل کچیل سے پاک صاف رکھ اس میں مجھ کو میرے نصیب میں لکھی گئی مشکلات پر صبر عطا فرما اور آج اپنی مدد کے ساتھ مجھ کو پرہیزگاروں اور نیکوکاروں کے ساتھ رہنے کی توفیق دے اے بے چاروں کی آنکھوں کی ٹھنڈک۔
اللَّهُمَّ طَهِّرْنِی فِیهِ مِنَ الدَّنَسِ وَالْاَقْذَارِ وَ صَبِّرْنِی فِیهِ عَلَی کَائِنَاتِ الْاَقْدَار وَوَفِّقْنِی فِیهِ لِلتُّقَی وَصُحْبَةِ الْاَبْرَار بِعَوْنِکَ یا قُرَّةَ عَینِ الْمَسَاکِین
کمال تک رسائی
اللَّهُمَّ طَهِّرْنِی فِیهِ مِنَ الدَّنَسِ وَالْاَقْذَارِ
دعا کمال تک پہنچنے کا وسیلہ ہے۔ دعا صرف ثواب تک دستیابی کیلئے نہیں ہے بلکہ دعا کو کمال تک رسائی کیلئے پڑھا جاتا ہے۔ اس دعا میں ہم خدا سے عرض کرتے ہیں کہ ہمیں کثافتوں سے پاک کرے۔ الدَّنَسِ وَالْاَقْذَارِ اس عبارت سے مراد گناہ کی پلیدی اور کثافات ہیں، گناہ آدمی کو کثیف کرتا ہے اور دل کو زنگ آلود کر دیتا ہے۔ دل کے زنگ کو برطرف کرنے کیلئے ضروری ہے کہ سحر کے اوقات میں قرآن پڑھا جائے۔ روایت میں آیا ہے کہ انسان کا قلب زنگ آلود ہو جاتا ہے، جس طرح لوہے کو زنگ لگتا ہے، پس اپنے قلب کو استغفار اور تلاوتِ قرآن کے ساتھ اجلا رکھو۔ اسی طرح یتیموں کی مدد اور دستگیری سے بھھی دل کا زنگ اتر جاتا ہے۔ ’’کثافتوں‘‘ سے مراد گناہ و معصیت کا میل ہے۔ انسان اگر اہل معصیت ہو تو اس کے اندر بدبو پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس مومن ہو تو اس میں خوشبو پیدا ہوتی ہے۔ اویس قرنی جب پیغمبرؐ کے ساتھ ملاقات کیلئے آئے تھے تو رسول خداؐ کے گھر کو معطر کر گئے تھے اور اگلے دن جب پیغمبرؐ اپنے گھر واپس آئے تو فرمایا: اِنِّی لَاَجِدُ نَفَسَ الرَّحْمَنِ مِنْ جَانِبِ الْیمَن۔ پیغمبرؐ نے اویس کی خوشبو کو محسوس کر لیا تھا۔
جب انسان خدا کی معصیت کرتا ہے تو وہ گناہ و معصیت انسان کے ظاہر و باطن پر بد اثر ڈالتا ہے۔ روایات میں ہے کہ ہر گناہ کو انجام دینے سے انسان کے دل پر سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے اور وہ نقطہ وقت گزرنے اور گناہوں میں اضافہ ہونے کے ساتھ بڑھتا رہتا ہے اور انسان کے دل کے سیاہ ہونے کا باعث ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ الہی حقائق کو نہیں سنتا بلکہ کی مخالفت کرتا ہے۔ پس گناہوں کی آلودگی سے پاکی کیلئے ضروری ہے کہ انسان پروردگار عالم سے مدد کی دعا کرے اور اس کے سامنے دعا کرے کہ اس کے گناہ معاف کر دے تاکہ ان آلودگیوں سے بھی چھٹکارا مل جائے کیونکہ صرف اللہ تعالیٰ کی بخشش و مغفرت کے سائے میں انسان پلیدی اور گناہ کی زشتی سے پاک ہوتا ہے اور خداوند متعال بھی قرآن میں اپنے بندوں کو اس طرح بشارت دیتا ہے: قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ اَسْرَفُوا عَلَی اَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ اِنَّ اللَّهَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا اِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو) کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ خدا تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ (اور) وہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔
روایت میں آیا ہے کہ انسان کا قلب زنگ آلود ہو جاتا ہے جیسے لوہے کو زنگ لگتا ہے پس اپنے دل کو استغفار و تلاوتِ قرآن کے ساتھ جلا دو۔ اسی طرح یتیموں کی دستگیری سے بھی دل کا زنگ برطرف ہو جاتا ہے۔
روح کی متعفن بو کو برطرف کرنا
اس دور میں ہر چیز کی طہارت اور پاکیزگی مشکوک ہے۔ پورے سال میں طرح طرح کی حرام اور مشکوک غذائیں ہم کھاتے ہیں اور ماہ رمضان فرصت ہے تاکہ باطنی صفائی ستھرائی کی جاسکے۔ حلال غذائیں تناول کرنا دعا کی قبولیت میں مؤثر ہے۔
وَصَبِّرْنِی فِیهِ عَلَی کَائِنَاتِ الْاَقْدَارِ
کَائِنَاتِ الْاَقْدَارِ سے مراد اللہ تعالیٰ کی حتمی قضا و قدر ہے۔ جو بھی لوح محفوظ میں قضا و قدر رکھتا ہے، وہ نہیں جانتا کہ اس کی صلاح اس امر میں ہے۔ سحری کے وقت تلاوتِ قرآن سے دل کا زنگ زائل ہو جاتا ہے۔
دعا کے اس حصے میں خدا کے حضور عرض گزار ہیں کہ ہمیں اپنی قضا و قدر پر راضی کر دے۔ اس بنا پر خدا سے درخواست کرتے ہیں کہ خدایا! مجھے اپنی تقدیر پر صابر قرار دے!
انسان کا زندگی کے تمام مراحل میں اپنے اعمال و افعال کے رشد و ترقی کا جائزہ لینے کے حوالے سے امتحان ہوتا ہے اور جو لوگ اس امتحان میں قبول ہو جاتے ہیں وہ اللہ کی تقدیرات پر راضی ہوتے ہیں اور مشکلات و مصائب پر صبر کرتے ہیں۔
امتحانِ الہٰی کے مقابلے میں صبر
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: وَلَنَبۡلُوَنَّكُم بِشَيۡءٖ مِّنَ ٱلۡخَوۡفِ وَٱلۡجُوعِ وَنَقۡصٖ مِّنَ ٱلۡأَمۡوَٰلِ وَٱلۡأَنفُسِ وَٱلثَّمَرَٰتِۗ وَبَشِّرِ ٱلصَّـٰبِرِينَ یعنی ہم اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میوؤں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے توصبر کرنے والوں کو (خدا کی خوشنودی کی) بشارت سنا دو۔
یہ آیت اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ انسان زندگی کے تمام مراحل میں اپنے افعال و کردار میں رشد و ترقی کی جانچ کیلئے امتحان میں مبتلا ہوتا ہے اور جو اس امتحان میں کامیاب ہو جائیں،اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہو جائیں، مشکلات و مصائب پر صبر کریں اور مصیبت آنے پر کلمہ استرجاع یعنی انا لله وانا الیه راجعون یعنی ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں؛ خدا تعالیٰ ان کے صبر اور ایمان کے بدلے قرآن میں فرماتا ہے: اُولَئِکَ عَلَیْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَاُولَئِکَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ
یہی لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی مہربانی اور رحمت ہے اور یہی سیدھے رستے پر ہیں۔
تقویٰ و پرہیزگاری
وَوَفِّقْنِی فِیهِ لِلتُّقَی
دعا کے اس حصے میں خدا سے عرض کرتے ہیں کہ ہمیں تقویٰ اختیار کرنے کی توفیق دے۔ روزے کا ایک فلسفہ تقویٰ ہے۔ تقویٰ کا معنی یہ ہے کہ اگر کوئی ہمارے اعمال سے باخبر ہو تو ہماری زندگی اس طرح ہو کہ ہمیں کوئی تکلیف نہ ہو۔ ماہ رمضان تقویٰ کی تمرین کی ایک فرصت ہے۔ قرآن میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: ان اکرمکم عندالله اتقکم یعنی خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔
پس خدا کے نزدیک قرب و اجرب کے حصول کیلئے تقویٰ اختیار کرنا ضروری ہے۔ تقوی کا مطلب یہ ہے کہ انسان واجبات کو انجام دے اور محرمات کو ترک کر دے کہ جس سے انسان دنیوی و اخروی اعلیٰ مقامات پر فائز ہوتا ہے۔ ان مقامات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان تقوی اختیار کرے اور آیت کے مطابق پرہیزگار خدا کے نزدیک قابل احترام ہے۔ پس تمام دنیوی و اخروری امور میں خدا اس کیلئے کافی ہے۔
نیک لوگوں کی مصاحبت اور تقویٰ میں رابطہ
وَصُحْبَةِ الْاَبْرَارِ
دعا کے اس حصے میں خدا سے یہ عرض کرتے ہیں کہ خدایا! ہمیں اچھے لوگوں اور ابرار کا ہم نشین قرار دے۔ اس نکتے پر توجہ ضروری ہے کہ ہم کس کے ساتھ ہم نشین ہو رہے ہیں۔ تقویٰ اور نیک لوگوں کی مصاحبت میں گہرا تعلق ہے کیونکہ متقی انسان ہرگز بدکاروں اور اہل معصیت کے ساتھ مصاحبت و معاشرت نہیں کرتا؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: قل لایستوی الخبیث والطیب کہہ دو کہ ناپاک چیزیں اور پاک چیزیں برابر نہیں ہوتیں!
بعَوْنِکَ یا قُرَّةَ عَینِ الْمَسَاکِین خدایا! اپنی مدد کے ساتھ میری یہ چار دعائی مستجاب فرما! اے وہ ذات جو فقرا کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔