نواز شریف اب بظاہر دکھی کیوں ہیں؟

[]

شریف فیملی اور مسلم لیگ ن کی حکومت میں نواز شریف کے پاس ہی ویٹو پاور ہے، مستقبل کے اہم فیصلے بھی انہی کی مرضی سے ہوں گے۔

نواز شریف اب بظاہر دکھی کیوں ہیں؟
نواز شریف اب بظاہر دکھی کیوں ہیں؟
user

Dw

پاکستانی سیاسی حلقوں میں یہ بات خاص طور پر محسوس کی جا رہی ہے کہ خوش خوراک، خوش پوشاک اور ہشاش بشاش طبیعت کی شہرت رکھنے والے سابق ملکی وزیر اعظم نواز شریف آج کل کسی بھی عوامی تقریب میں بظاہر خوش دکھائی نہیں دے رہے۔ایک ایسا سیاست دان جس کے بھائی کو وزارت عظمیٰ ملی ہو اور جس کی بیٹی ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزیر اعلیٰ بن چکی ہو، اس کا لوگوں سے میل جول سے گریز، بات چیت نہ کرنا، ہر وقت چہرے پر افسوس اور بہت سنجیدہ کیفیات کا طاری رہنا بہت سے لوگوں کے لیے حیرت کا باعث بنا ہوا ہے۔

حال ہی میں شہباز شریف اور مریم نواز کی حلف برداری کی تقاریب اور قومی اسمبلی میں نومنتخب اراکین کی حلف برداری کے موقع پر میاں نواز شریف کی جو تصاویر سامنے آئیں، ان میں بظاہر بے بسی اور دکھ کے جذبات نمایاں تھے اور بقول شخص کے آج کل نواز شریف کی باڈی لینگوئج کسی ہارے ہوئے آدمی کی باڈی لینگوئج جیسی دکھائی دیتی ہے۔

نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز اسلام آباد میں فیکلٹی آف سوشل سائنسز کے ڈین اور ممتاز ماہر ابلاغیات پروفیسر ڈاکٹر خالد رسول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کسی سیاسی رہنما کی کمیونیکیشن میں اس کی باڈی لیگوئج کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اچھی باڈی لینگوئج اس کے کارکنوں میں جوش ،امید اور جذبہ پیدا کرتی ہے جبکہ کسی بھی لیڈر کی کمزور باڈی لینگوئج اس کےکارکنوں کو کوئی اچھا پیغام نہیں دیتی۔

ان کے بقول تازہ ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ کسی بھی لیڈر کو سننے والے اس لیڈر کی بات پر صرف تیس فیصد توجہ دیتے ہیں جبکہ ان کی ستر فیصد توجہ اس رہنما کی باڈی لینگوئج، چہرے کے تاثرات اور آنکھوں کی حرکات و سکنات پر ہوتی ہے۔ ”اگر کوئی شخص کم گو ہو جائے، لوگوں سے ملنے سے گریز کرے، یا اس کا چہرہ سپاٹ ہو کرجذبات سے عاری لگنے لگے تو اس کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کا دل اور دماغ اس کے حالات سے مطابقت نہیں رکھتے۔‘‘

ڈاکٹر خالد رسول کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف کے چہرے کے دکھ بھرے حالیہ مناظر ملک میں کئی جگہ نوٹ کیے جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق لگتا یہ ہے کہ نواز شریف جن توقعات کو لے کر لندن سے آئے تھے، وہ پوری نہیں ہو سکیں۔ ”پاکستان کو نواز دو ‘‘ کے نعرے کے ساتھ انتخابی مہم میں ان کو استعمال کرکے کامیابی کے بعد ان کو چوتھی مرتبہ وزیر اعظم نہیں بنایا گیا۔ شاید ان کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ شہباز شریف کے مقابلے میں ان کے اتحادیوں، اسٹیبلشمنٹ اور ان کی پارٹی کے کچھ افراد کے نزدیک نواز شریف کو زیادہ قبولیت حاصل نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ میاں محمد نواز شریف پر ‘کراس لگانے والوں‘ میں کچھ بیرونی طاقتیں بھی شامل ہیں۔ ‘‘

نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز کی فیکلٹی آف سوشل سائنسز کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر خالد رسول کے الفاظ میں، ”اس ساری صورت حال نے یہ تاثر پیدا کر دیا ہے کہ نواز شریف بنیادی فیصلہ سازی سے باہر ہو چکے ہیں۔ ان کا دور گزر چکا ہے، سبھی ہجوم اب اپنے چہرے چڑھتے سورج کی طرف کیے ہوئے ہیں۔ اس لیے نواز شریف اب دکھی اور غمگین دکھائی دیتے ہیں۔‘‘

سینئر تجزیہ کار سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ درست ہے کہ آج کل میاں نواز شریف کی باڈی لینگوئج ان کی روایتی شخصیت کا ساتھ نہیں دے پا رہی اور وہ اپنے ‘دکھ درد‘ کو کوشش کر کے بھی چھپانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے۔

سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایک تو نواز شریف کو پی ٹی آئی کے مقابلے میں وہ کامیابی نہیں مل سکی جس کی وہ توقع کر رہے تھے۔ دوسرے یہ کہ جنہوں نے اقتدار ان کی جماعت کو دلوایا، اب مرضی بھی انہی کی چل رہی ہے۔ نواز شریف کو اپنے مزاج کے خلاف سمجھوتے کی سیاست کرنا پڑ رہی ہے۔ ان کی بے بسی یہ ہے کہ ان کے پاس اس صورت حال کو بدلنے کی ہمت بھی نہیں ہے۔ ان کو اس بات پر غصہ بھی ہے کہ خود ان کی پارٹی کے کچھ لوگوں نے بھی ان کے ساتھ کھیل کھیلا ہے۔ اس ساری صورت حال میں اب ان کے پاس کہنے کو زیادہ کچھ نہیں اور وہ خاموشی کو ترجیح دے رہے ہیں۔‘‘

نواز شریف کے قریبی رفیق کار اور مسلم لیگ ن کے رہنما عرفان صدیقی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے اور نواز شریف کی متعلقیت اب بھی قائم ہے۔ عرفان صدیقی نے بتایا کہ شریف فیملی اور مسلم لیگ ن کی حکومت میں انہی کے پاس ویٹو پاور ہے، مستقبل کے اہم فیصلے بھی انہی کی مرضی سے ہوں گے۔ ان کی سفارش پر ہی شہباز شریف وزیر اعظم اور مریم نواز وزیر اعلیٰ پنجاب بنے ہیں۔ ان کی عمر اور صحت کی صورت حال ایسی ہے کہ وہ جلسوں، گلیوں اور سڑکوں کی سیاست نہیں کرنا چاہتے اور اسی لیے اب وہ اپنے نئے رول میں رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔

عرفان صدیقی کا اصرار تھا کہ نواز شرف پاکستان آنے سے پہلے ہی شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ ”اصل بات یہ ہے کہ والد، والدہ اور اہلیہ کی وفات کے صدمات سے وہ ابھی تک باہر نہیں نکل سکے۔ یہ صدمات جن حالات میں انہوں نے جھیلے، خاص طور پر اپنی بیمار اہلیہ کو چھوڑ کر گرفتاری کے لیے پاکستان چلے آنا اور مرحومہ کے آخری لمحات میں ان کو اپنی اہلیہ کی بیمار پرسی کے لیے ٹیلی فون کرنے تک کی اجازت بھی نہ ملنا، نواز شریف ابھی تک یہ سب کچھ بھول نہیں پائے۔ اسی طرح ترقی کرتا ہوا ملک پاکستان پچھلے چند سالوں میں جن مسائل کا شکار ہوا، وہ بھی نواز شریف کے لیے بڑی تشویش کی بات ہے۔‘‘

لاہور کے ایک رہائشی مزمل حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نواز شریف کی تشویش کا اندازہ اس واقعے سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ چند دن پہلے جب نواز شریف ایوان صدر میں شہباز شریف کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے گئے اور تقریب کے بعد صدر آصف علی زرداری سے بھی ملے، تو نواز شریف نے انہیں ملک اور قوم کا خیال رکھنے کی تلقین نہیں کی تھی بلکہ شہباز شریف کا بازو پکڑ کر صدر آصف زرداری سے کہا تھا کہ اب انہوں نے شہباز شریف کا خیال رکھنا ہے۔ ”شاید انہیں یہ خوف تھا کہ ان کا بھائی اب ایسے لوگوں کے ساتھ چلا گیا ہے، جن کی دوستی اچھی اور نہ ہی دشمنی۔‘‘


;

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *