دنیا کا پہلا جیتا جاگتا بازو جو لیبارٹری میں بنایا گیا

[]

آئن اسٹائن کا شمار سائنس دانوں میں ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا دماغ اتنا غیر معمولی تھا کہ اسے عجوبہ سمجھ کر ایک مرتبان میں محفوظ کرلیا گیا۔ دلچسپ بات یہ کہ ذہین ترین سمجھے جانے والے آئن سٹائن اسکول میں خاصے پھسڈی تھے۔ استانیاں اکثر والدین سے ان کی شکایت کرتی تھیں کہ وہ تعلیم پر توجہ نہیں دیتے۔ مگر شعور سنبھال کر آئن سٹائن نے جب اپنے دماغ سے کام لینا شروع کیا تو اہم ایجادات منظر عام پر آئیں۔

یہ مثال عیاں کرتی ہے کہ بصورت دماغ انسان کے پاس ایک رفیع الشان آلہ موجود ہے۔ وہ اس کی مدد سے حیرت انگیز کار ہائے نمایاں انجام دے سکتا ہے۔ ایک ایسا ہی کارنامہ حال ہی میں سامنے آیا اور دنیائے سائنس میں ہلچل مچا گیا۔ میساچوسٹس جنرل اسپتال امریکی شہر بوسٹن میں واقع ہے۔

یہاں سرجن ڈاکٹر ہیرالڈ اوٹ کام کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ہیرالڈ کو یہ دیکھ کر بہت صدمہ پہنچا کہ کسی حادثے میں ایک انسان کی ٹانگیں‘ بازو یا کوئی بھی عضو ضائع ہوتا تو معذور ہونے کی بنا پر اس کی زندگی اجیرن بن جاتی۔ وہ چھوٹے چھوٹے کاموں کی خاطر بھی دوسرں کے محتاج ہوجاتا۔

چنانچہ ڈاکٹر ہیرالڈ نے فیصلہ کیا کہ وہ ساتھیوں کے ساتھ مل کر لیبارٹری میں گوشت پوست کا مصنوعی بازو یا ٹانگ بنانے کی سعی کرتا ہے۔ اولین قدم کے طور پر طے پایا کہ چوہے کا بازو تیار کیا جائے تاکہ بعد ازاں بڑے انسانی اعضا تخلیق کرنے کی راہ ہموار ہوسکے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر ہیرالڈ نے ایک سائنسی طریق کار ”ڈیسیل /ریسیل Decel/recelسے مدد لی۔

ڈیسیل اور ریسیل دراصل دو سائنسی طریقوں کے مخفف ہیں۔ ڈیسیل سائنسی طریقے ”ڈیسیلو ٹرالزیشن“Decellularizationکا مخفف ہے۔ اس عمل میں کسی مردہ جانور کا مطلوبہ عضو مثلاً بازو ٹانگ نرخرہ وغیرہ لے کر اسے کیمیائی محلول سے دھویا جاتا ہے۔ محلول اس عضو کا گوشت پوست گلا دیتا ہے۔ چنانچہ ہڈیوں اور سخت مواد (پروٹین کولاجن) پر مشتمل ڈھانچاباقی رہ جاتا ہے۔

بہر حال یہ ڈھانچہ حقیقی عضو کا سارااندرونی نظام قائم دائم رکھتا ہے جس میں خون کی شریانیں‘ ریشے Tendonsاور اعصاب شامل ہیں۔ یہ ڈھانچہ سائنسی اصطلاح میں ”اسکا فولڈ“ Scaffold کہلاتا ہے۔ ریسیل ایک معکوس سائنسی عمل ”ریسیلولرائزیشن“ Recellularisedکا مخفف ہے۔ اس عمل میں سائنسی طریقوں کی مدد سے مردہ جانور کے خلیے ڈھانچے میں ”چھڑکے“جاتے ہیں۔ یہ ڈھانچہ پھر ”بائیوری ایکٹر“ Bioreactorنامی خصوصی مشین میں رکھا جاتا ہے تاکہ خلیے ڈھانچے میں رچ بس کرنشوونما پاسکیں۔

یہ خلیے رفتہ رفتہ نئی بافتیں بناتے ہیں اور یوں گوشت پوست سے بنا نیا عضو معرض وجود میں آنے لگتا ہے۔ ڈھانچہ اور خلیے دونوں ہی مردہ جانور سے تعلق رکھتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ ڈھانچہ خلیوں کو قبول کرلیتا ہے اور انہیں اجنبی شے قرار دے کر مسترد نہیں کرتا۔ ماضی میں ہاہرین طب ”ڈیسیل /ریسیل“ طریقہ عمل کی مدد سے ہوا کی نالی windpipeاور حجزے Larynxکی بافتیں بنا چکے لیکن یہ دونوں سادہ جسمانی عضو ہیں ……جبکہ بازو تخلیق کرنا زیادہ کٹھن کام تھا۔

ظاہر ہے ایک بازو عضلات‘ خون کی شریانوں یا نالیوں جلد اور ہڈیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ پھر یہ عضو مختلف پیچیدہ کام انجام دیتا ہے۔ اسی لیے لیبارٹری میں گوشت پوست والے مصنوعی بازو کو تیار کرنا بچوں کا کھیل نہیں تھا۔ واضح رہے کہ بازو کے مختلف حصے مختلف خلیوں سے وجود میں آتے ہیں۔

ڈاکٹر ہیرالڈ نے نہایت کٹھن تجربے کے آغاز میں ایک مردہ چوہے کا بازو لیا اور اسے کیمیائی محلول میں بھگوکر ڈھانچے کی شکل دے دی۔ اگلے مرحلے میں اسے بائیوری ریٹر میں رکھ کر اسے ایک ”مصنوعی گردشی نظام“ Artificial circulatory system سے جوڑدیا۔ اسی نظام کے ذریعے ڈھانچے کو غذائیت Nutrientsآکسیجن اور برقی تحریک electrical Stimulationدی جانے لگی تاکہ اس میں جو خلیے داخل کیے جائیں‘ وہ نشوونما پاسکیں۔ سب سے پہلے ڈاکٹر ہیرالڈ نے ڈھانچے میں خون کی نالیوں میں انسانی اینڈوتھلیل Endothelialخلیے داخل کیے۔

یہ خلیے نالیوں کو مضبوط بناتے ہیں تاکہ وہ دوڑتے بھاگتے خون کا دباؤ برداشت کرسکیں۔ ڈاکٹر نے انسانی اینڈوتھلیل خلیے بازو کی نالیوں میں اس لیے چھوڑے کہ وہ کارکردگی میں چوہے کے خلیوں سے زیادہ بہتر ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر ہیرالڈ نے پھر ڈھانچے کے ان حصوں میں ”مایو بلاسٹ“ Myoblastخلیے کیے جہاں عضلات پائے جاتے ہیں۔

مایو بلاسٹ عضلات پیدا کرنے والے ہی خلیے ہیں۔ جب یہ کام بھی ہوچکا‘ تو ڈھانچہ کو نشوونما پانے کی خاطر چھوڑدیا گیا۔ تین ہفتے بعد اس میں خون کی نالیاں اور عضلات پیدا ہوگئے۔ آخر میں ڈاکٹر ہیرالڈ نے لیبارٹری میں وجود میں آنے والے دنیا کے پہلے چوہے کے بازو پر جلد کی پیوند کاری کردی۔

یوں چوہے کا صحیح سالم بازو وجود میں آگیا۔ اب سوال یہ پیدا ہو اکہ کیا بازو کام کرنے کے قابل ہے؟ یہ دیکھنے کے لیے ڈاکٹر ہیرالڈ نے بازو کے عضلات میں بجلی کا تھوڑا سا کرنٹ دوڑادیا۔ (یاد رہے‘ ہمارے تمام جسمانی اعضا برقی سگنلوں کی مدد سے حرکت کرتے ہیں) ڈاکٹر اور ان کے ساتھی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بازو کا پنجہ یوں بند ہونے اور کھلنے لگا جیسے وہ زندہ جانور کا ہو۔ یہ دیکھ کر سبھی کو بے حد مسرت ہوئی کیونکہ ان کا تجربہ کامیاب ہوگیا۔

یہ مستقبل میں جیتے جیتے جاگتے انسانی اعضا بنانے کی طرف پہلا قدم ہے۔ راستہ ابھی رکاوٹوں اور مشکلات سے پر ہے مگر پہلے تجربے کی کامیابی نے آشکارا کردیا کہ لیبارٹری میں انسانی اعضا مثلاً بازو ہاتھ ٹانگ پیر دل جگر گردے وغیرہ اُگانا ممکن ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگلے ایک سو برس میں طبی سائنس کی حیران کن ترقی کے باعث معذوری قصہ پارینہ بن جائے گی اور بہت سی قیمتی انسانی جانیں بچانا ممکن ہوسکے گا۔
٭٭٭



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *