میوات میں مسلمانوں کے خلاف یکطرفہ کارروائی قانون و انصاف کے ساتھ سنگین مذاق: مولانا ارشد مدنی

[]

نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے ہریانہ کے میوات علاقہ میں گزشتہ دنوں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کو لے کر کی جانے والی بے دریغ اور یکطرفہ کارروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ قانون و انصاف کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہے۔ انہوں نے کہا کہ تشدد کیوں برپا ہوا اور کن لوگوں نے برپا کیا، پہلے اس کی ایماندارانہ جانچ ہونی چاہئے تھی اور اس کے بعد ہی کارروائی کی جانی چاہئے تھی۔ لیکن افسوس ہریانہ پولس قانون و انصاف دونوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ایک مخصوص فرقہ کے لوگوں کی اندھا دھند گرفتاریاں کر کے اس پورے علاقہ میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرنا چاہ رہی ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب حیرت انگیز طور پر میڈیا کا ایک بڑا حلقہ کسی حد تک غیر جانبدارانہ رویہ کا مظاہر کرتے ہوئے نہ صرف وہاں کی انتظامیہ اور ریاستی سرکار سے سوال پوچھ رہا ہے بلکہ بہت سی ایسی باتوں کو بھی اب وہ سامنے لا رہا ہے جو ایک شرمناک سچ ہیں، مگر جن پر ہریانہ کی ریاستی سرکار کی طرف سے مسلسل پردہ ڈالنے کی کوششیں ہوتی رہیں ہیں، خاص طور سے ایک شرپسند مونو منیسر کی گرفتاری اور میوات کے خطہ میں نفرت کی آگ بھڑکانے کے اس کے مرکزی کردار پر اب میڈیا سوال کر رہا ہے، مگر اس کا کوئی تسلی بخش جواب دینے کے بجائے ریاستی سرکار کے اشارہ پر مسلمانوں کے خلاف یکطرفہ کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ جگہ جگہ تلاشیاں ہو رہی ہیں اور گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

جمعیۃ علماء ہند کا ایک وفد متاثرہ علاقے کے دورہ پر گیا تھا جس نے واپس آ کر یہ معلومات دی ہے کہ اب تک 138 لوگوں کی گرفتاری دکھائی گئی ہے جبکہ حراست میں لئے گئے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان میں ایک مخصوص فرقہ کا تناسب 90 فیصد سے زیادہ ہے۔ مولانا مدنی نے سوال کیا کہ کیا اسے انصاف کہا جا سکتا ہے، اور کیا ایسا کر کے انصاف اور قانون کے تقاضوں کو پورا کیا جا رہا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں، بلکہ ایسا کر کے ایک مخصوص فرقہ کو نفسیاتی طور پر اس حد تک خوف زدہ کر دینے کی منصوبہ بند سازش ہو رہی ہے کہ وہ آئندہ کسی بھی ظلم اور ناانصافی کے خلاف لب کھولنے کی جرأت نہ کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ میوات کے اس خطہ میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 70 فیصد سے زیادہ ہے، یہاں ہمیشہ سے دونوں فرقوں کے درمیان محبت اور مذہبی رواداری کا جذبہ موجزن رہا ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ تشدد کے دوران اس علاقہ میں مسلمانوں نے مقامی ہندوؤں اور ان کے مذہبی مقامات کا تحفظ کیا ان پر کسی طرح کی کوئی آنچ نہیں آنے دیں۔

مولانا مدنی نے آگے کہا کہ اخبارات اور میڈیا کے ذریعہ اب تک جو کچھ سامنے آیا ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اشتعال انگیزی اور تشدد کو ہوا دینے والے باہر سے آئے تھے۔ ان میں مقامی ہندو شامل نہیں تھے چنانچہ ہم پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ باہر سے آئے ہوئے ان تخریب کاروں کی نہ صرف نشاندہی کی جائے بلکہ ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی بھی ہو کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے میوات کے علاقہ کے امن و اتحاد میں آگ لگائی۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کی بھنک وہاں کی انتظامیہ اور پولس کو نہ لگی ہو، جبکہ سوشل میڈیا پر دھڑلے سے دھمکیوں بھرے اشتعال انگیز ویڈیو اپلوڈ کئے جارہے تھے۔ یہ صاف اشارہ ہے کہ تشدد بھڑکا نہیں ہے بلکہ بھڑکایا گیا ہے اور اب اس کا سارا الزام مسلمانوں کے سر منڈھ کر ملک بھر میں منافرت اور مذہبی شدت پسندی کو ہوا دینے کا ایک نیا کھیل شروع کر دیا گیا ہے۔ معتبراطلاعات ہیں کہ یاترا میں شامل لوگ جب نوح سے نکلے تو انہوں نے سوہنا اور اس کے اطراف کے علاقوں اور گروگرام کے بادشاہ پور میں چن چن کر مسلمانوں کی دکانوں کو نذر آتش کیا۔ یہاں تک کہ گروگرام میں ایک مسجد میں گھس کر بلوائیوں نے نائب امام کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا اور مسجد میں آگ لگا دی۔ مولانا مدنی نے سوال کیا کہ کیا یہ جرم نہیں ہے؟ اگر ہے تو پھر وہاں اندھا دھند یکطرفہ کارروائیاں کیوں ہو رہی ہیں؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نوح میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے پیچھے سیاسی محرکات ہیں، فرقہ پرست ٹولی کو اپنی من مانی اور غنڈہ گردی کا زمانہ جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اس لئے منافرت کے ذریعہ مذہبی شدت پسندی کو ہوا دی جا رہی ہے تاکہ اس کے سہارے ایک بار پھر 2024 کا پارلیمانی الیکشن جیت لیا جائے۔ یہ بات بہر طور یاد رکھی جانی چاہئے کہ انصاف کے دوہرے پیمانہ سے ہی بدامنی اور تباہی کے راستے کھلتے ہیں۔ قانون کا پیمانہ سب کے لئے ایک جیسا ہونا چاہئے، اور مذہبی طور پر کسی بھی شہری کے ساتھ امیتازی سلوک نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس کی اجازت نہ تو ملک کا آئین دیتا ہے اور نہ ہی قانون۔

مولانا مدنی نے اخیر میں کہا کہ بلاشبہ فرقہ پرستی اور مذہب کی بنیاد پر نفرت پیدا کرنے سے ملک کے حالات مایوس کن اور خطرناک ہیں، لیکن ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ امید افزا بات یہ ہے کہ تمام ریشہ دوانیوں کے باوجود ملک کی اکثریت فرقہ پرستی کے خلاف ہے، جس کی زندہ مثال کرناٹک کے الیکشن کے نتائج ہیں۔ ہم ایک زندہ قوم ہیں اور زندہ قومیں حالات کے رحم و کرم پہ نہیں رہتی بلکہ اپنے کردار و عمل سے حالات کا رخ پھیر دیتی ہیں۔ یہ ہمارے امتحان کی سخت گھڑی ہے چنانچہ ہمیں کسی بھی موقع پر صبر یقین، امید اور استقلال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔ وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا، قوموں پر آزمائش کی گھڑیاں اسی طرح آتی رہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ہزاروں بار کا تجربہ ہے کہ فساد ہوتا نہیں ہے بلکہ کرایا جاتا ہے۔ اگر انتظامیہ نہ چاہے تو ہندوستان میں کہیں بھی فساد نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ضلع انتظامیہ کو جوابدہ بنایا جانا ضروری ہے، کیونکہ اگر ایس ایس پی اور ڈی ایم کو یہ خطرہ لاحق رہے کہ فساد کی صورت میں خود ان کی اپنی گردن میں پھندا پڑ سکتا ہے تو کسی کے چاہنے سے بھی کہیں فساد نہیں ہو سکتا ہے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *