[]
مفتی احمد عبید اللہ یاسر قاسمی
خادم تدریس ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد
انوار و برکات کی فضا: خدائے ذو الجلال والاكرام نے حضور علیہ السلام کے صدقے اس امت کو بہت سے ایسے ایام عطا کئے ہیں، جن سے اہل ایمان کے قلوب ترو تازہ ہوتے ہیں،ایمانی جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں، طاعت میں اضافہ ہوتا ہے اور معصیت پر پابندی لگتی ہے،جنکی بدولت وحدت و یکجہتی اوربھائی چارگی کو فروغ ملتا ہے، انہیں مواقع سے نفس کی روحانی تربیت ہوتی ہے ،
بے راہ رووں کو توبہ کا اور صالحین کو زیادتی حسنات کا موقع نصیب ہوتا ہے،مومنین صادقین ان مواقع سے فائدہ اٹھاکر نکھرتے ہیں اور بندے اپنے روٹھے رب کو منانے کی فکر میں سرگرداں ہوتے ہیں کیوں نہ ہوں؟ کہ جس میں فرائض کا ثواب ستر گنا اور نوافل کا ثواب فرائض کے برابر قرار دیا گیا، جسے نزول قرآن کے شرف سے مشرف فرمایا گیا، جس کا ایک ایک لمحہ کبریت احمر قرار دیا گیا، جس میں جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جانے اور جہنم کے بند کردیئے جانے کا مژدہ سنایا گیا،
جس میں سرکش شیاطین کے قید کردیئے جانے کی خوشخبری سنائی گئی، جس کے لئے سارا سال جنت سجائے جانے کی نوید سنائی گئی، اور اُسے یہ اعزاز دیا گیا کہ بارگاہ الٰہی میں اس کی شفاعت رد نہیں کی جائے گی،ہر شخص جانتا ہے ان انوار و برکات کی فضا،رحمتوں اور سعادتوں کی آب و ہوا جن ایام کو میسر آتی ہے وہ یقیناً ماہ رمضان المبارک کے خوبصورت ترین لمحات اور ایام ہیں،خیر و برکت، روحانی تربیت، اور احتسابِ ذات کا یہ با برکت مہینہ ’’رمضان المبارک‘‘ عنقریب جلوہ گر ہونے والا ہے۔
رمضان المبارک کی آمد پر سرکارِ دو عالمؐ کا خطبہ اِستقبالیہ
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ شعبان کے مہینہ کی آخری تاریخ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں ایک خطبہ دیا اِس میں آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا:اے لوگو ! تم پرایک عظمت اوربرکت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے اِس مبارک مہینے میں ایک رات(شبِ قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اِس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں اوراِس کی راتوں میں بارگاہِ خداوندی میں کھڑے ہونے (یعنی تراویح پڑھنے )کو نفل عبادت مقرر کیا ہے (جس کا بہت بڑا ثواب رکھا ہے )جو شخص اِس مہینے میں اللہ کی رضا اور اُس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (یعنی سنت یا نفل)اَدا کرے گا تو اُس کو دُوسرے زمانے کے فرضوں کے برابر اُس کا ثواب ملے گا اور اِس مہینے میں فرض اَدا کرنے کا ثواب دُوسرے زمانے کے ستر فرضوں کے برابر ملے گا۔
یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے،یہ ہمدردی اور غمخواری کا مہینہ ہے،اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اِضافہ کیا جاتا ہے، جس نے اِس مہینے میں کسی روزہ دار کو (اللہ کی رضا اورثواب حاصل کرنے کے لیے )اِفطار کرایا تو یہ اُس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور دوزخ کی آگ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اوراُس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا بغیر اِس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔آپؐسے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! ہم میں سے ہر ایک کو تو اِفطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا تو (کیا غریب لوگ اِس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے ؟) آپؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہ ثواب اُس شخص کو بھی دے گا جو ایک کھجور یا دُودھ کی تھوڑی سی لسی پر یاصرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کا روزہ اِفطار کرادے ۔ (اِس کے بعد آپؐ نے فرمایا ) اِس مبارک مہینہ کا پہلا حصہ رحمت ہے ، درمیانی حصہ مغفرت ہے اورآخری حصہ دوزخ کی آگ سے آزادی ہے۔ (اِس کے بعد آپؐ نے فرمایا) اور جو آدمی اِس مہینے میں اپنے غلام وخادم کے کام میں ہلکا پن اور کمی کردے گا اللہ تعالیٰ اُس کی مغفرت فرمادے گا اوراُس کو دوزخ سے رہائی اورآزادی دے گا۔
اوراِس مہینہ میں چار چیزوں کی کثرت رکھا کرو جن میں سے دوچیزیں ایسی ہیں کہ تم اِن کے ذریعہ سے اپنے رب کو راضی کرسکتے ہو اوردوچیزیں ایسی ہیں جن سے تم کبھی بے نیاز نہیں ہوسکتے ۔ پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرسکتے ہو وہ کلمہ طیبہ اوراِستغفار کی کثرت ہے۔اور دُوسری دوچیزیں یہ ہیں کہ جنت کا سوال کرو اور دوزخ سے پناہ مانگو۔اورجو کوئی کسی روزہ دار کو پانی سے سیراب کرے گا اُس کو اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) میرے حوضِ (کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اُس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی یہاں تک کہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا۔(بیہقی، ترغیب وترہیب)
اس طویل حدیث سے یہ بات بخوبی معلوم ہوتی ہے کہ ماہِ رمضان کا پانا، اس کا ملنا اور نصیب ہونا یہ اللہ کا فضل وکرم اور اس کی رحمت ومہربانی ہے، اس لئے ماہ رمضان پانے پرایک مسلمان کو خوش ہونا چاہئے؛کیونکہ یہ مہینہ ماہِ صیام و ماہِ قرآن، ماہِ رحمت اور ماہ غفران ہے، یہ مہینہ ماہِ خیر و برکت، ماہِ صدقہ و سخاوت ہے،ماہِ وسعتِ رزق اور ماہ فضل و احسان ہے،یہ مہینہ ماہِ صبر و مواسات اور ماہِ توبہ و طاعت ہے لہٰذا اس کے استقبال کی تیاری کرنی چاہیے اور اس پر عمل کرنا چاہیے۔
(1)عظمت و برکت کا مہینہ اور اسکا احساس: سب سے پہلے ہمیں اپنے دل میں رمضان کی اہمیت و فضیلت اور اس کی عظمت کا شعور پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے صلوۃ و صوم قیام و سجود کے مقاصد اور اس ماہ کے پیغام کو اپنے ذہن میں تازہ رکھنا چاہیے،اس بات کا پختہ ارادہ کیجیے کہ ان ایام میں اپنے اندر تقوی پیدا کرنے کی کوشش کریں گے جو دراصل روزہ کا ماحصل ہے۔
(2) صبر : رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے خطبہ میں ماہِ رمضان المبارک کو صبر اور غم خواری کا مہینہ فرمایا ہے۔ صبر اِسلامی اِصطلاح میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنے نفس کی خواہشات کو دبانا اور تلخیوں اور ناگواریوں کو جھیلنا ہے۔ ماہِ رمضان المبارک اَوّل تا آخر اَیسے ہی گزرتا ہے،ایسے ہی روزہ رکھ کر فاقہ کشی کی تلخی کا احساس ہوتا ہے اور غرباءاور مساکین کے ساتھ ہمدردی اور غم خواری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ خواہشات پر لگام کسی جاتی ہے نفس پر کنٹرول کرکے کھانے پینے سے رکا جاتا ہے،رات کے وقت میں تراویح شرکت ختم قرآن شریف،سحری میں جاگنا، تہجد پڑھنا یہ سب امور نفس پر شاق اور گراں ہیں بلاشبہ رمضان المبارک صبر اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ لیکن اس پر صبر ہمارے لئے باعث خوشنودی خداوندی ہے اور جس چیز سے اللہ راضی ہو اور جس چیز کے بدلے جنت ملتی ہے۔
(4) ہمدردی و غمخواری : حضور ﷺ فرماتے ہیں: ھو شھر المواساۃ۔ یہ مہینہ غمخواری کا ہے اس میں ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی کرو اور اپنی افطاری کیلئے چار پانچ چیزیں رکھیں تو کم سے کم غریب کو بھی اس سے کچھ تو حصہ دینا ہے۔ اپنے سے بڑھ کر نہیں تو اپنے ساتھ برابر تو کرلو۔ لن تنالوالبر حتی تنفقوا مما تحبون (سورۃ ۲ آیت ۹۲) جب تک اپنے پسندیدہ چیز کو اللہ کے نام پر خرچ نہ کردو تو تم بّر(نیکی) کے درجے حاصل نہیں کرسکتے، تو صحیح بھلائی تو یہ ہے کہ مسکین کی غم خواری میں اپنے سے بھی بہتر دے دو خیر اگر یہ نہ ہو سکتاہو تو مساوات کے درجے میں دے دو، مساوات بھی نہیں تومواسات کے درجہ میں سہی یہ تو نہ ہو کہ ہمارے پاس کھانے پینے کی بہتات ہے اور ہمارے جوار اور محلہ میں لوگ بھوکے تڑپ رہے ہیں، یتیم فاقہ کشی میں جی رہے ہیں،کرونا وائرس کے قہر سے آج غریب عوام پریشان ہیں امراء اور زردار افراد سے التجاء ہے کہ رمضان کے مقدس ماہ میں ان غرباء کے ساتھ غمخواری کرکے قول رسول کا پاس و لحاظ کیجیے۔
(5)رزق کی وسعت اور فراوانی : حضور اقدس ﷺ فرماتے ہیں کہ (ویزاد فیہ رزق المومن) رمضان کے مہینے میں مومن کا رزق بڑھ جاتا ہے اور یہ تجربہ بھی ہے کہ غریب سے غریب مسلمان کیوں نہ ہو، افطار کے وقت سحری کے وقت گیارہ ماہ کے مقابلے میں رمضان میں رزق کی وسعت ہوتی ہے مسافر کو کھانا ملتا ہے غریب بھوک سے نہیں مررہا ہوتا ہے یقینا فراخی ہوتی ہے۔
(6)افطاری کرانے کا اجر و ثواب: حضور اقدس ﷺ فرماتے ہیں کہ جس نے کسی روزہ دار کی افطاری کا بندوبست کرلیا تو باری تعالیٰ کی جانب سے اسے تین چیزیں ملیں گی:
(1) گناہ معاف کردئیے جائیں گے۔(2)جہنم سے اللہ تعالیٰ آپ کے رقبہ (گردن) کو نجات دے دے گا۔ (3)کہ اس روزہ رکھنے والے کو جتنا اجر و ثواب ملے گا، اتنا ہی اسے بھی ملے گا۔
صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم میں سے ہرشخص تو افطاری کرانے کی قدرت نہیں رکھتا۔ تو عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم میں غریب بھی ہیں جو پیٹ بھرکر کھانا نہیں دے سکتے تو فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ ایک کھجور دے دو، ایک گھونٹ پانی کا دے دو، اور ایک گھونٹ لسی کا دے دو۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ کنویں سے نلکے سے پانی لاکر روزہ دار کے سامنے رکھ دو، تو ایک گھونٹ اور ایک کھجور پر بھی اللہ تعالی روزہ دار کو افطار کرانے کا ثواب عطا فرمائیں گے ۔
(7)چار چیزوں کی کثرت : اور اِس مہینہ میں چار چیزوں کی کثرت کا حکم دیا گیا اور فرمایا کہ جن میں دو چیزیں ایسی ہیں کہ تم اِن کے ذریعہ سے اپنے رب کو راضی کرسکتے ہو اوردوچیزیں ایسی ہیں جن سے تم کبھی بے نیاز نہیں ہوسکتے ۔ پہلی دوچیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرسکتے ہو وہ (1) کلمہ طیبہ اور (2)اِستغفار کی کثرت ہے۔اور دُوسری دوچیزیں یہ ہیں کہ (3)جنت کا سوال کرو اور (4)دوزخ سے پناہ مانگو۔
رمضان المبارک کے تین عشرہ: آخر خطبہ میں ماہِ رمضان المبارک کی تین فضیلتیں بیان کی گئی ہیں :
(1) پہلا عشرہ رحمت (2)دوسرا عشرہ مغفرت
(3) تیسرا عشرہ دوزخ کی آگ سے آزادی ہے۔
ماہِ رمضان المبارک کے پہلے عشرہ میں اللہ تعالیٰ مومنوں پر خاص رحمت نازل فرماتا ہے وہ بندے جو ہمیشہ گناہوں سے بچنے کا اِہتمام رکھتے ہیں اُن کے لئے رمضان المبارک خصوصی رحمتیں لے کر جلوہ افروز ہوتا ہے۔ دوسرے عشرہ میں تمام صغیرہ گناہوں کی معافی ہے جو جہنم سے آزادی اور جنت میں داخلہ کا سبب ہے تیسرے عشرہ میں دوزخ کی آگ سے آزادی حاصل ہوتی ہے اور روزہ داروں کے لئے جنتی ہونے کا اِعلان کر دیا جاتا ہے۔ مزید براں اجرو ثواب کی بارش کر دی جاتی ہے کہ جو صاحبِ اِیمان ماہِ رمضان المبارک میں اپنے خادم، ملازم اور ماتحت عملہ کے اوقاتِ کار میں تخفیف کرے گا اُس کےلئے بدلہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اعلان فرمایا ہے وہ یہ ہے، سرکار کائنات فرماتے ہیں ، اللہ تعالیٰ اُس کو نہ صرف یہ کہ بخشش عطا فرمائے گا بلکہ آگ سے آزادی بھی عطا فرمائے گا ۔
٭٭٭