[]
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، یہ روح کے تزکیہ اور تطہیر کا مہینہ ہے، کسی برتن میں کوئی اچھی چیز ڈالنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اس کو اچھی طرح صاف کر لیا جائے اور اس میں کوئی گندگی باقی نہ رہے، انسان کا دل بھی ایک برتن ہے، جس کی صلاح سے انسان کا پورا وجود صالحیت کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے، اور جس کے بگاڑ سے اس کا پورا وجود بگاڑ کا شکار ہو جاتاہے، جیسے ظاہری گندگی اور میل کچیل سے انسان کا جسم اور اس کا لباس گندا ہو جاتا ہے،
اور اس مین تعفن پیدا ہو جاتا ہے، اسی طرح گناہ بھی ایک روحانی گندگی ہے، جو قلب کے پیمانے کو ناپاک اور گندہ کر دیتا ہے، اس کو صاف کرنے کا طریقہ توبہ ہے، اللہ تعالیٰ کی شان کریمی ہے کہ انسان کتنا بھی بڑا گناہ کرے توبہ سے گناہ کا کا داغ دھل جاتا ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی شخص کفرو شرک میں مبتلا ہو اور وہ اس سے تائب ہو جائے تب بھی اس کو اپنے جرم سے معافی مل جاتی ہے۔
در اصل انسان خیر و شر کا مجموعہ ہے ، یہ نیکیوں پر قادر ہے ؛ لیکن برائیوں سے عاجز نہیں ، نہ فرشتہ ہے کہ برائی کا خیال تک دل میں نہ آئے، اور نہ شیطان ہے کہ ضلالت و گمراہی سے کبھی دل خالی ہی نہ ہو ، اس لئے اسے اس ’’امتحان گاہ ‘‘ میں رکھا گیا ہے کہ دیکھا جائے کہ اس کی نیکیاں برائیوں پر فتح پاتی ہیں یا برائیاں نیکیوں پر غالب آتی ہیں ، انبیاء کے سوا کوئی انسان نہیں ، جو غلطی اور خطا سے یکسر محفوظ ہو ، گویا غلطی انسان کی سرشت میں ہے ، اگر یہ نہ ہو تو انسان فرشتہ بن جائے ، انبیاء کے بعد سب سے کامل انسان وہ لوگ ہوتے ہیں ، جن کو انبیاء کی رفاقت اورنصرت کے لئے منتخب کیا جاتا ہے ؛ لیکن اس مقام و مرتبہ کے باوجود بعض اوقات پیغمبروں کے اصحاب سے بھی غلطیاں صادر ہوئی ہیں ؛ البتہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان کو فوراً ہی اپنے گناہ پر ندامت اور پشیمانی ہوتی ہے ، اور اس طرح یہی نہیں کہ ان کی یہ ندامت اس گناہ کی تلافی کا سامان بن جاتی ہے ؛ بلکہ ان کا اس طرح گناہ کرنا اور پھر گناہ کے بعد اللہ تعالیٰ کی جلالت ِشان کے مطابق پشیمان ہونا بجائے خود اُمت کے لئے اُسوہ قرار پاتا ہے ۔
آپ ﷺ نے اسی حقیقت کو اس طرح ارشاد فرمایا کہ ہر ابن آدم ضرور ہی خطا کرتا ہے ؛ لیکن بہترین خطا کار وہ ہیں ، جو گناہ کا ارتکاب کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے دروازۂ مغفرت پر اپنی ندامت کی پیشانی رکھ دیں اور توبہ کر لیں : ’’خیر الخطائین التوابون ‘‘ مخلوق کا مزاج یہ ہے کہ وہ انتقام لے کر خوش ہوتی ہے ، اس سے اس کے جذبۂ انا کی تسکین ہوتی ہے اور کلیجہ ٹھنڈا ہوتا ہے ؛ لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات والا صفات پر رحمت کا غلبہ اور وہ رحمٰن و رحیم اور غفور و کریم ہے ، اسی لئے اسے گنہگاروں اور کوتاہ کاروں کو معاف کر کے خوشی ہوتی ہے ، انسان انتقام کے لئے بہانے ڈھونڈتا ہے اور اللہ تعالیٰ بہانوں سے مغفرت کے فیصلے فرماتے ہیں ، کسی نے حج کر لیا تو پچھلی پوری زندگی کا گناہ معاف کر دیا ، عمرہ کر لیا تو ایک عمرہ سے دوسرا عمرہ کے درمیان کے گناہ معاف ہوگئے ، بعض روزے ہیں کہ پورے صغیرہ گناہوں کے کفارہ ہیں ، نمازیں بھی جسم سے گناہوں کے میل کو صاف کرتی ہیں ، صدقات بھی گناہوں کا کفارہ بنتے ہیں ، یہ اللہ تعالیٰ کی شانِ کریمی ہے کہ چھوٹے چھوٹے عمل کی بنیاد پر انسان کے گناہ معاف ہوتے جائیں ۔
قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ کو ’’ عفو‘‘ یعنی بہت معاف کرنے والا قرار دیا ہے ، عربی زبان میں ’’ عفو ‘‘ کے اصل معنی مٹانے کے ہیں ، (القاموس المحیط: ۱۱۸۱) پس ’’ عفو‘‘ کے معنی مٹا دینے والے کے ہوئے ، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جن گناہوں کو معاف کرتے ہیں ان کو بالکل ہی مٹا دیتے ہیں اور شاید نامۂ اعمال سے بھی محو فرمادیتے ہیں ، یہ کتنی بڑی شانِ کریمی ہے ! انسان کسی کو معاف بھی کر دے تو وہ غلطی کو لوحِ قلب سے مٹانے کو تیار نہیں ہوتا ، وہ وقتی طور پر جذبۂ انتقام کو دبا لیتا ہے اور جب کبھی تعلقات میں ناہمواری آتی ہے تو پھر اس کو اس کا نامۂ اعمال دکھانے اور چھپے ہوئے واقعات کو منظر عام پر لانے کے لئے کمر کس لیتا ہے ، سیاست کی دنیا میں تو اکثر اسکینڈل اسی طرح ظہور میں آتے ہیں ؛ لیکن اللہ تعالیٰ کے یہاں درگذر کا دامن اتنا وسیع ہے کہ جب اللہ کسی بات کو معاف فرماتے ہیں ، تو اس کو ریکارڈ سے ہی حذف کر دیتے ہیں ۔
توبہ کا تصور جہاں آخرت میں انسان کے لئے نافع ہے ، وہیں دنیا میں بھی کچھ کم نافع نہیں ، اگر ایک کے اندر نااُمیدی اور مایوسی پیدا ہوگی ، جرم کا حوصلہ بڑھے گا اور جرم پیشہ اذہان سوچنے لگیں گے کہ جب دوزخ مقرر ہی ہو چکی ہے ، تو دنیا ہی کی لذت اُٹھالی جائے اور جہاں ایک دفعہ جرم کا ارتکاب ہوا ، دس اور سہی ، اس سے جرم کو بڑھاوا ملے گا اور سماج میں زندگی اجیرن ہو جائے گی ، اس لئے توبہ کا تصور دنیا میں بھی ایک بڑی رحمت ہے اور اس سے سماج کا امن و آشتی متعلق ہے ۔
توبہ کے لئے اصل محرک اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کا احساس ہے ، انسان اپنے گناہ پر ندامت اور پشیمانی محسوس کرے ، اپنے گناہوں کو یاد کر کے اس کا دل لرزنے لگے ، خدا کے سامنے اس کے ہونٹ کپکپانے لگیں ، آنکھوں کے آنسو دل کی بے چینی اور اضطراب کی گواہی دیں اور اس کا ضمیر گناہوں کے بوجھ تلے اپنے آپ کو دبا ہوا محسوس کرے ، اس پشیمانی اور سچی ندامت کے بغیر محض زبان سے توبہ کے الفاظ کہہ دینا کافی نہیں ، انسان پر اپنی قلبی کیفیت کے لحاظ سے گناہ کا کیا اثر مرتب ہوتا ہے ؟
اس کو آپ انے ایک مثال سے واضح فرمایا کہ نیک اور سچا مسلمان جب کسی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو اسے ایسا لگتا ہے کہ جیسے اس کے سر پر پہاڑ جیسا بوجھ ہے اور جو شخص گناہوں کا عادی ہو جاتا ہے اسے گناہ سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی مکھی ہے جو ناک پر بیٹھی ہوئی ہے ، ذرا ہاتھ ہلایا اور اڑگئی (بخاری، باب التوبۃ، حدیث نمبر: ۶۳۰۸) ایک اور روایت میں ہے کہ جب کوئی شخص گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کے قلب پر ایک سیاہ دھبہ پڑ جاتا ہے ، اگر توبہ کر لے تو دُھل جاتا ہے اور توبہ نہ کرے تو جوں جوں گناہ کرتا جاتا ہے قلب پر دھبے بڑھتے جاتے ہیں ، یہاں تک کہ پورا قلب سیاہ ہو جاتا ہے ، اب انسان گناہ کرتا ہے اوراس کا احساس تک نہیں ہوتا ۔ (مستدرک حاکم، باب تفسیر سورۃ المطفّفین، حدیث نمبر: ۳۹۰۸)
حقیقت یہ ہے کہ انسان کے لئے بے توفیقی سے بڑھ کر کوئی محرومی نہیں ، جیسے دنیا میں بہت سے امراض ہیں جس سے آدمی دو چار ہوتا ہے ؛ لیکن سچ پوچھئے تو شاید ’’جنون‘‘ سے بڑھ کر کوئی مرض نہیں ؛ اس لئے نہیں کہ اس میں تکلیف زیادہ ہوتی ہے ؛ بلکہ اس لئے کہ اس میں مریض کو اپنے مریض ہونے کا احساس نہیں رہتا ، وہ بیمار ہوتا ہے ؛ لیکن اپنے آپ کو صحت مند تصور کرتا ہے ، اس کو علاج کی ضرورت ہوتی ہے ؛ لیکن وہ اپنے آپ کو علاج کی ضرورت سے بری سمجھتا ہے ، اسی طرح توبہ سے بے توفیقی ایک ’’ روحانی جنون ‘‘ ہے کہ انسان گناہ میں مبتلا ہے ، سر سے پاؤں تک گناہ میں ڈوبا ہوا ہے ؛ لیکن اپنے گناہگار ہونے کا کوئی احساس نہیں کرتا اور کبھی یہ خیال نہیں کرتا ، کہ خدا کی چوکھٹ پر ندامت اور شرمندگی کی پیشانی رکھے اور التجا کی زبان کھولے ، اللہ نہ کرے کہ کوئی مسلمان ایسی محرومی اور بد بختی سے دو چار ہو ۔
توبہ کے لئے پچھلے کئے پر ندامت کے ساتھ مستقبل کا عزمِ مصمم بھی ضروری ہے ، آدمی اپنے دل میں یہ ارادہ رکھے کہ وہ آئندہ کبھی بھی اس غلطی کا اعادہ نہ کرے گا ، اس بات کا نام توبہ نہیں کہ ابھی غلطی کئے دیتے ہیں پھر کبھی گناہ ہوگیا تو پھر توبہ کر لی جائے گی ، کہ بقولِ شاعر ’’ کم بخت قیامت ابھی آئی نہیں جاتی ‘‘ کیوں کہ اس طرح کی سوچ اس بات کی علامت ہے ، کہ وہ زبان اور دل کی رفاقت کے ساتھ پشیمانی کا اظہار نہیں کر رہا ہے اور اپنی توبہ میں صادق القول نہیں ہے ۔
ہر گناہ سے توبہ کا ایک ہی طریقہ نہیں ؛ بلکہ اس کے لئے بھی شریعت نے کچھ اُصول مقرر کر دیئے ہیں ، جن گناہوں کے لئے قرآن وحدیث میں کوئی کفارہ مقرر کر دیا گیا ہو تو ان کی توبہ یہ ہے کہ کفارہ ادا کیا جائے ، مثلاً کسی شخص نے جان بوجھ کر روزہ توڑ دیا تو ساٹھ روزے رکھنا اور اس پر قدرت نہ ہو ، تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا اس کا کفارہ ہے، (در مختار : ۲ ؍ ۱۰۹)
قسم کھائی؛ لیکن اسے پورانہ کر پایا تو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا دس مسکینوں کو کپڑا پہنانا ہے ، (المائدۃ : ۸۹) ان گناہوں سے توبہ یہی ہے کہ ان کا کفارہ ادا کر دیا جائے۔
بعض کوتاہیوں پر شریعت نے قضا واجب قرار دی ہے ، جیسے کسی شخص سے عذر کی بنا پر روزہ فوت ہوگیا تو اس پر ان روزوں کی قضا واجب ہے ، ہوش و حواس کی حالت میں نمازیں قضا ہو گئیں تو ان کی بھی قضا واجب ہے ، یہ گویا بندوں پر اللہ تعالیٰ کا دَین ہے ، جس کی ادائیگی واجب ہے ، ان کوتاہیوں کی توبہ یہی ہے کہ فوت شدہ نمازوں کی قضا کی جائے ، اسی طرح بعض عبادتوں کے فوت ہونے پر فدیہ واجب قرار دیا ہے ، جیسے کوئی شخص بہت ضعیف یا مریض ہو ، روزہ رکھنے پر قادر نہیں اور بظاہر مستقبل قریب میں صحت یاب ہونے کی بھی توقع نہیں ، تو ایسے شخص کے لئے یہ سہولت ہے کہ ہر روزہ کے عوض ایک فدیہ ادا کر دے ، یعنی ایک غریب و محتاج شخص کو دو پہر اور رات کا کھانا کھلائے ، یا صدقۂ فطر کے بقدر غلہ دے دے ، اصل میں تو یہ حکم روزہ کے سلسلہ میں آیا ہے ؛ (البقرۃ : ۱۸۴) لیکن فقہاء نے روزوں پر قیاس کرتے ہوئے نماز میں بھی اس کی اجازت دی ہے کہ جن لوگوں کی نماز فوت ہوگئی اور وہ اب نماز ادا کرنے کے لائق نہ رہے، یاان کا انتقال ہو گیا تو ان کی فوت شدہ نمازوں کا فدیہ ادا کر دیا جائے ، (در مختار : ۲ ؍ ۱۱۹)
ان کوتاہیوں کی توبہ یہی ہے ، خاص کر جب کسی شخص کا انتقال ہو جائے تو بجائے اس کے کہ لہو ولعب میں پیسے خرچ کئے جائیں ’’کفارہ ‘‘ اور ’’ فدیہ ‘‘ ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ ان سے متوفی کو راحت حاصل ہوگی۔
کچھ گناہ اور کوتاہیاں بندوں کے حقوق سے متعلق ہیں ، یہ حقوق دو طرح کے ہیں : مالی اور غیر مالی ، انسان سے متعلق مالی حقوق میں کوتاہیوں کی توبہ یہ ہے کہ صاحب ِحق کو اس کا حق ادا کر دیا جائے ، یا اس سے معاف کرا لیا جائے ، کسی کا دین باقی ہو ، بلا اجازت کسی کی چیز استعمال کر لی ہو ، کسی کو اس کے حق سے محروم کر دیا ہو ، میراث میں اپنے حق سے زیادہ لے لیا ہو ، یہ تمام صورتیں مالی حق تلفی کی ہیں ، ان کا ادا کرنا ضروری ہے اور اگر ادا کرنے کے لائق نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس سے معذرت کرے اور اس کو راضی کر کے اپنا گناہ معاف کرالے ، بعض حقوق غیرمالی ہوتے ہیں ، جیسے کسی کو گالی دی ، کسی کا تمسخر کیا اور برا بھلا کہا ، کسی کی غیبت کی ، بہتان لگایا ، یہ تمام باتیں حق تلفی اور گناہ کے دائرہ میں آتی ہیں ، ان گناہو ںکی توبہ یہ ہے کہ جس کے ساتھ زیادتی کی ہے ، اس سے اپنی غلطی کی معافی مانگی جائے ، یہ ضروری نہیں کہ اس بات کی بھی وضاحت کی جائے کہ اس نے اس کے بارے میں کیا کیا کہا ہے اور کیا کچھ زیادتی کی ہے ؟ بلکہ مبہم طور پر معاف کرنے والا یوں کہہ دے کہ تم سے جو کچھ بھی غلطی ہوئی ہو میں اسے معاف کرتا ہوں ، تو یہ بھی کافی ہے ، ایک ایک غلطی کا شمار کرانا ضروری نہیں ، اگر اللہ کے کسی بندہ کے حق میں زیادتی ہوگئی ہو تو وہ بڑا ہو یا چھوٹا ، زیادہ با عزت ہو یا کم معزز ، عذر خواہی اور عفو خواہی میں تکلف نہیں کرنا چاہئے ؛ کیوں کہ حقوق العباد میں ہونے والی کوتاہیاں اللہ تعالیٰ بھی معاف نہیں کریں گے ، جب تک کہ خود صاحب ِمعاملہ معاف نہ کر دے ، یہاں تک کہ شہادت اور اللہ کے راستہ میں جان کی سپردگی جیسا عظیم عمل بھی انسان کو انسان کے حق میں ہونے والی کوتاہیوں سے بچا نہیں سکتا ، اس لئے اس میں شرم و عار کو رکاوٹ نہ بنانا چاہئے ۔
ان گناہوں کے علاوہ جو گناہ ہیں ، جیسے جھوٹ بولنا ، یا ایسا ملک جہاں شرعی حدود نافذ نہ ہوتی ہوں ، میں ایسے کسی جرم کا مرتکب ہونا جس پر خود اللہ کی طرف سے شرعی سزائیں مقرر ہیں ، جیسے زنا ، چوری ، کسی مسلمان پاک دامن شخص پر تہمت اندازی ، شراب نوشی وغیرہ ، ان کے لئے بھی خوب گڑ گڑا کر توبہ کرنا چاہئے اور یوں بھی استغفار کی کثرت رکھنی چاہئے ؛ تاکہ یہ اس کے دانستہ اور نا دانستہ گناہو ںکا کفارہ بن جائے ، کہ رسول اللہ ﷺ بعض اوقات ایک ہی مجلس میں ستر ستر بار استغفار فرمایا کرتے تھے ، رمضان المبارک کا مہینہ جہاں نفل عبادت ، قرآن مجید کی تلاوت ، انفاق اور دُعاؤں کا مہینہ ہے ، وہیں توبہ و استغفار کے لئے بھی اس سے بہتر کوئی موسم نہیں ، جس میں اللہ تعالیٰ کا دروازۂ رحمت کھلا رہتا ہے اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں ۔
٭٭٭