غزہ: انتہائی مشکل حالات میں گزر رہی خواتین کی زندگی، باپردہ خواتین بے پردہ زندگی گزارنے پر مجبور

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنگ کے حالات میں 690،0000 سے زائد خواتین کو ماہواری کے ایام میں ’ماہواری پیڈ‘ بھی میسر نہیں۔ ان ایام میں خواتین کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>غزہ میں باپردہ خواتین کو مشکل حالات کا سامنا، Getty Images</p></div><div class="paragraphs"><p>غزہ میں باپردہ خواتین کو مشکل حالات کا سامنا، Getty Images</p></div>

غزہ میں باپردہ خواتین کو مشکل حالات کا سامنا، Getty Images

user

حماس اور اسرائیل کے درمیان گزشتہ ایک سال سے جاری جنگ کے خاتمے کا دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آ رہا ہے۔ جنگ کی شدت اور ہولناکی کی وجہ سے پورا فلسطین خاص طور سے غزہ ملبے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ایک طرف جہاں ہزاروں مکان بشمول کالج، مسجد اور اسپتال کے نیست و نابود کر دیے گئے وہیں ہزاروں لوگوں نے اپنی جانیں گنوا دیں۔ سروں سے سائے اجڑنے کے بعد لوگ ٹینٹ اور کھلے آسمان کے نیچے رہنے پر مجبور ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 90 فیصد لوگ تقریباً 2.3 ملین لوگ اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ جبکہ 45000 سے زائد فسلطینیوں نے اپنی جانیں گنوا دی ہیں جن میں زیادہ تر تعداد خواتین اور بچوں کی ہیں۔ غذائی قلت کی وجہ سے فاقہ کشی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ اگر ہم بات کریں ٹینٹ میں رہنے والوں کی تو سردی کی شدت میں ان کو کھانے پینے کی قلت ساتھ ساتھ پہننے کے کپڑوں کی بھی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اگر ان چھوٹے چھوٹے ٹینٹ میں زندگی گزارنے پر مجبور لوگوں کی بات کریں تو خواتین کو پرائیویسی (رازداری) کی پریشانی کا زیادہ سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دراصل مجبوری کی حالت میں چھوٹے سے ٹینٹ میں خواتین کو نامحرموں کے ساتھ رہنا پڑ رہا ہے۔ ایسے میں خواتین کو اپنے نامحرموں سے پردہ کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مجبوری کا عالم یہ ہے کہ ایک چھوٹے سے ٹینٹ میں خواتین، بچے اور مرد سب ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔ چھوٹے سے ٹینٹ میں خواتین کو کپڑوں کی تبدیلی اور سونے تک کے لیے مناسب جگہ نہیں مل پا رہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے خواتین سے اس کی پرائیویسی (رازداری) کو سلب کر لیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنگ کے حالات میں 690،0000 سے زیادہ خواتین کو ماہواری کے ایام میں ’ماہواری پیڈ‘ بھی میسر نہیں ہیں۔ ایسے میں خواتین کو ان ایام میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ غزہ میں خواتین کے امور کے مرکز کی ڈائریکٹر امل صیام کے مطابق ایسی ناگفتہ بہ حالات خواتین کے لیے کافی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ ٹینٹ میں پناہ لینے والے فلسطینی شہریوں کی مجبوری کی انتہا یہ ہے کہ وہاں پر بیت الخلاء تک کا انتظام نہیں ہے۔

غزہ کے ٹینٹ میں پریشانی بھری زندگی گزانے پر مجبور علاء حمامی نے کہا کہ ہماری پوری زندگی نماز کے لیے پہنے جانے والی کپڑوں میں گزر رہی ہے۔ اب ہم اس چادر کو نہیں اتار سکتے، رات کو سونے سے لے کر ہر وقت ہم یہ کپڑہ پہنتے ہیں۔ ہر وقت آس پاس مردوں کی موجودگی کی وجہ سے جسم کو باپردہ رکھنے کے لیے یہ کپڑہ پہننا ہماری مجبوری ہے۔ اگر رات میں سوتے بھی ہیں تو یہی کپڑا پہنتے ہیں کیونکہ اسرائیلی حملے کی کوئی خبر نہیں کب کس جانب سے ہو جائے۔ ایسے میں محفوظ مقام کی طرف بھاگنے میں آسانی ہو سکے۔ غزہ کے ٹینٹ میں خواتین کو جو آج بے پردگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے یہ صرف اور صرف مجبوری کی وجہ سے ہے۔ جب یہاں کے حالات بہتر تھے تو خواتین پردے کا خاصا اہتمام کرتی تھیں۔ خواتین انجان اور نامحرموں کے سامنے بے پردہ نہیں آتی تھیں۔

قابل ذکر ہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ نے پیر (30 دسمبر 2024) کو غزہ میں اسپتالوں پر حملے بند کرنے کی گزارش کی ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے یہ بات اسرائیل کے مسلسل اسپتالوں پر حملے کیے جانے کے بعد کہی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹریڈوس ایڈنوم گیبریئس نے کہا کہ ’’غزہ کے اسپتال ایک بار پھر جنگی میدان بن گئے ہیں۔ ایک بار پھر صحت کا نظام ڈر و خوف کے سائے میں آ گیا ہے۔ ہم ایک بار پھر دوہراتے ہیں کہ غزہ میں اسپتالوں پر حملے کرنے بند کر دیے جائیں۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے جنگ بندی کی بھی بات کی۔


[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *