[]
مہر خبررساں ایجنسی،سیاسی ڈیسک؛ پاکستان میں گذشتہ مہینے ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومت بن گئی ہے۔ الیکشن کمیشن نے تین دن کے بعد انتخابی نتائج کا اعلان کیا جس کے مطابق 265 میں 102 پارلیمانی نشستوں پر عمران خان کی تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی۔ نواز شریف کی مسلم لیگ نون 73 اور پیپلز پارٹی 54 نشستوں کے ساتھ دوسری اور تیسری پوزیشن پر رہیں۔
پاکستانی تنظیم امت واحدہ کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین محمد امین شہیدی نے مہر نیوز کے بین الاقوامی شعبے سے پاکستان کے حالات اور واقعات پر گفتگو کی۔ ذیل میں ان کے انٹرویو کا متن پیش کیا جارہا ہے
مہر نیوز: ایران کے ہمسایہ ملک پاکستان اس وقت مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق ملک کو اقتصادی اور سیکورٹی مشکلات درپیش ہیں یہ مشکلات کب ختم ہوں گی؟ ان حالات میں پاکستانی سیکورٹی اداروں یا افواج پاکستان کا کیا کردار ہے؟
علامہ امین شہیدی: ہمیں پاکستان کے مسئلے کو تاریخی نقطہ نظر سے دیکھنا ہوگا۔ قائد اعظم محمد علی جناح بانی پاکستان تھے۔ جب پاکستان بنا تو ہندوؤں اور مسلمانوں میں کشمکش تھی اور دونوں انگریزوں سے لڑ رہے تھے۔ مسلمانوں کا خیال تھا کہ وہ ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتے، اس لیے انہوں نے ایک سیاسی تحریک شروع کی۔ جب جمہوری پاکستان بنا تو مسلمانوں کی آبادی کے لحاظ سےدنیا کا سب سے بڑا ملک پاکستان تھا، اور بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ تھا۔ اس وقت ملک پاکستان شیعہ، سنی، اسماعیلی، پنجابی، سندھی، بنگالی اور بلوچ پر مشتمل تھا اور تمام نسلیں مل جل کر رہتی تھیں اور ان کی قیادت محمد علی جناح کر رہے تھے۔ جب پاکستان آزاد ہوا تو انگریزوں نے انتظامی حوالے سے مسائل پیدا کئے۔ یہ مسائل محمد علی جناح کی رحلت کے بعد مزید گھمبیر ہوگئے۔ملک میں سیاسی روایت اور کلچر کے بجائے طاقت کی حکومت آگئی ۔جمہوری طریقہ رفتہ رفتہ ختم ہوتا گیا اور اصل طاقت فوج کے ہاتھ میں آ گئی۔ جو لوگ کسی بھی ملک میں انتخابات اور عوام کے ووٹ کے ذریعے کام کرنے آتے ہیں وہ اپنے فیصلوں میں عوام کی رائے پر توجہ دیتے ہیں لیکن جو لوگ مقتدر طبقات کی حمایت کے ساتھ ملک پر حکومت کرنا چاہتے ہیں، انہیں عوام کی کوئی پرواہ نہیں اور یہ رواج رفتہ رفتہ بڑھتا چلا گیا۔
ہندوستان پاکستان کے ایک دن بعد 15 اگست 1947 کو آزاد ہوا تھا۔ ہندوستانی سیاسی کلچر وقت کے ساتھ ساتھ مستحکم ہوا ہے۔ جب پاکستان بنا تھا تو ایک روپیہ دو امریکی ڈالر کے برابر تھا، اور بھارت معاشی طور پر ہم سے پیچھے تھا، اور بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ تھا۔ امریکی پاکستان آ رہے تھے اور چینی پاکستان سے قرض لے رہے تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان کے پاس وسائل بہت ہیں۔ لیکن جمہوری عمل اور کلچر اس ملک میں جڑ نہیں پکڑ سکا اور اس کے نتیجے میں فوج نے آہستہ آہستہ اقتدار سنبھالا اور اپنی مرضی کے مطابق کام کیا۔ اگر ہم پاکستان کی 70 سال سے زائد کی تاریخ کو تقسیم کریں تو تقریباً 30 سال انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آنے والوں کے ہاتھ میں رہے اور ملک تقریباً 40 سال فوج کے ہاتھ میں رہا۔
فوج کے ذریعے حکومت کرنے والے 10 سے 12 سال تک چلے لیکن جو جمہوری طریقے سے منتخب ہوئے وہ 5 سال بھی نہیں چل سکے۔ جب کسی ملک میں عوام کے ووٹوں سے حکومت نہ ہو اور اس ملک میں پالیسی سازی میں استحکام نہ ہو تو پالیسیاں مسلسل تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ اس کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان کو کمزور ہوگیا۔ 70 کی دہائی میں بنگلہ دیش پاکستان سے الگ ہوا اور یہ ملک سیاسی اور معاشی طور پر پاکستان سے بہت زیادہ مضبوط ہو گیا اور پاکستان کئی لحاظ سے پیچھے رہ گیا۔پاکستانی پوری دنیا میں ٹیلنٹ کے حوالے سے آگے ہیں۔وہ یورپ اور امریکہ میں اچھے عہدوں پر براجماں ہیں۔ پاکستان دنیا کا ساتواں ایٹمی ملک ہے۔ غریبوں کی خدمت کے حوالے سے بھی یہاں کے لوگ بہت آگے رہتے ہیں۔ بس پاکستان کا بنیادی مسئلہ ایک مضبوط لیڈر اور سیاسی نظام کا فقدان ہے۔پاکستانی بھی مذہبی ثقافت اور استکبار مخالف کے حوالے سے دوسرے ممالک سے زیادہ حساس ہیں۔ غزہ کے مسئلے میں پاکستان وہ ملک ہے جس نے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ مغربی کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جو کہ مکمل عوامی سطح پر کیا گیا ہے۔
مہر نیوز: پاکستان کے انتخابات کے معاملے میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ عمران خان کی جماعت کو دہشت گرد اور غیر قانونی قرار دے کر اس پارٹی سے انتخابی نشان کو چھین لیا گیا۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ ان کے حامیوں نے دوسری تمام جماعتوں سے زیادہ ووٹ ڈالے اور تقریباً 100 سیٹیں لے لیں۔ اس واقعے سےکیا پیغام ملا ہے؟
علامہ امین شہیدی: عمران خان جب اقتدار میں آئے تو ان کو بھی فوج کی حمایت حاصل تھی۔ پاکستان میں جو بھی پارٹی اقتدار میں آتی ہے اس کے پیچھے فوج کا ہونا ضروری ہے اور اگر فوج اس کا ساتھ نہ دے تو وہ اقتدار میں نہیں آسکتی۔ حالانکہ انتخابات بظاہر آزاد ہوتے ہیں اور لوگ ووٹ دیتے ہیں لیکن نظام ایسا ہے کہ عوام کے ووٹ کا زیادہ اثر نہیں ہوتا۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص عوام کے ووٹوں کے باوجود جیت نہ پائے اور اس کے برعکس عوامی ووٹ نہ ملنے کے باوجود وہ پارلیمنٹ میں پہنچ جائے۔ نظام فوج کے ہاتھ میں ہےجو ہمیشہ پس پردہ اپنا کام کرتی ہے۔
بہرحال فوج نے مدد کی اور عمران خان برسراقتدار آئے تو لوگ پر امید ہو گئے۔ انہوں نے سیاسی طور پر ایسے اقدامات کیے جو اگر جاری رہتے تو اگلے 10 سالوں میں پاکستان بدل سکتا تھا۔ اس نے اپنے طرز عمل اور باتوں سے ظاہر کیا کہ ہمیں آزاد ہونا چاہیے اور مشرق و مغرب پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ خارجہ پالیسی میں ان کے اقدامات سے پاکستان امریکیوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔
یہ رویہ امریکیوں اور فوج سے برداشت نہ ہوسکا جس کے نتیجے میں فوج اور عمران خان کے درمیان کشمکش شروع ہوگئی۔ یہ تنازعات عمران خان کے دورہ روس سے مزید بڑھ گئے۔ ان کا روس کا دورہ فوج اور امریکہ کے لیے سیاسی طور پر ناقابل برداشت تھا کیونکہ وہ ماسکو سے کم قیمت پر توانائی درآمد کرنا چاہتے تھے جس کی امریکیوں نے اجازت نہیں دی۔
اس پالیسی کے نتیجے میں فوج نے امریکہ کے ساتھ مل کر عمران خان کے خلاف کارروائیاں کیں اور ان کی حکومت کوختم کر دیا گیا۔ جب عمران خان کو نکالا گیا تو انہوں نے نعرہ لگایا کہ “مجھے امریکہ کی مخالفت کرنے پر نکالا گیا”۔ اس سے لوگ مزید غصے میں آگئے کیونکہ لوگ فکری طور پر امریکہ کو پسند نہیں کرتے اور امریکہ سے امید بھی نہیں رکھتے ہیں۔ فوج نے انہیں ہر ممکن طریقے سے کمزور کرنے کی کوشش کی اور عمران خان کے خلاف کارروائیاں کیں جس سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ آخر کار عمران خان کو گرفتار کر لیا گیا اور عبوری حکومت بنائی گئی جو تمام جماعتوں پر مشتمل تھی۔ اپوزیشن پارٹی صرف عمران خان کی تھی اور فوج حکومتی پارٹیوں کے ساتھ تھی۔ انتخابات میں تاخیر ہوئی کیونکہ مقتدر حلقے جانتے تھے کہ انتخابات ہونے کی صورت میں عمران خان کی پارٹی کو ووٹ ملیں گے، اس لیے عمران خان کی پارٹی کے تمام اہم ارکان اور عہدیداروں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہوا۔
الیکشن کرانے کی ڈیڈ لائن گزر گئی اور الیکشن نہیں ہوئے۔ اگرچہ عدالتی نظام نے یہ حکم جاری کیا کہ انتخابات کرائے جائیں لیکن انتخابات نہیں ہوئے اور 6 ماہ کے لیے ملتوی کر دیے گئے۔ فوج قانونی طور پر اس جماعت کو انتخابات کے دوران میدان سے نہیں نکال سکتی تھی لیکن انہوں نے عمران خان کی پارٹی سے انتخابی نشان واپس لے لیا تھا اور ان کی پارٹی بطور سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی تھی۔
ان حالات میں انتخابات ہوئے اور ایک ایسی حکومت وجود میں آئی جس کی نہ بین الاقوامی ساکھ ہے اورنہ عوامی حمایت۔ مسلم لیگ نون اور پی پی کی مشترکہ حکومت میں پی پی کوئی وزارت لینے کے بجائے قومی اسمبلی، سینیٹ کی صدارت لینا چاہتی ہے۔ پیسے کی قدر میں کمی آئی ہے جبکہ لوگوں کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ۔ مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے لوگ صرف کھانے پینے کی اشیاء خرید سکتے ہیں۔ معروضی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ حکومت زیادہ سے زیادہ دو سال تک چلے گی۔