[]
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی صدر آیت اللہ ابراہیم رئیسی نے الجزائر کے دورے کے دوران میزبان ملک کے سرکاری ٹی وی چینل “الاخباریہ” کو انٹرویو دیا اور مسئلہ فلسطین، ایران اور الجزائر کے تعلقات کے بارے میں مختلف سوالات کے جوابات دیے۔
ایرانی صدر نے گیس برآمد کرنے والے ممالک کی اسمبلی کے ساتویں اجلاس کے نتائج اور کامیابیوں پر اطمینان کا اظہار کیا۔ ذیل میں صدر رئیسی کے انٹرویو کا متن پیش کیا جاتا ہے۔
آپ نے گیس برآمد کرنے والے ممالک کے اجلاس میں اپنی تقریر میں فلسطین کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔ اگر ممکن ہے تو مسئلہ فلسطین کی طرف اس سطح کی توجہ کی وجہ بتائیں۔
صدررئیسی : بسم اللہ الرحمن الرحیم مجھے بہت خوشی ہے کہ میں ان دو دنوں کے لیے دوست اور برادر ملک الجزائر کے دورے پر ہوں اور گیس برامد کرنے والے ممالک کے سربراہی اجلاس کے کامیاب انعقاد پر الجزائر کی حکومت کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بلاشبہ گیس برآمد کرنے والے ممالک کے درمیان ہم آہنگی، اتفاق رائے اور مشترکہ سوچ خطے کے معاشی مستقبل کے لیے کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔
مسئلہ فلسطین اور غزہ کی انتہائی اہمیت اور حساسیت کے پیش نظر میں نے اپنی تقریر کا آغاز اس مسئلے سے کیا کیونکہ آج فلسطین کا مسئلہ نہ صرف عالم اسلام کا مسئلہ ہے بلکہ انسانیت اور دنیا کے تما حریت پسندوں کا مسئلہ بن چکا ہے۔
غزہ میں آج انسانیت کے خلاف جرم، جنگی جرائم، نسل کشی کے عنوان سے جو کچھ ہو رہا ہے، وہ کسی بھی بین الاقوامی قانون اور قرارداد کے مطابق نہیں ہے اور یہ ایک بہت بڑا اور سنگین جرم ہے۔ غزہ میں امریکہ اور مغربی ممالک کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آیا ہے۔
صیہونی حکومت نے فلسطینیوں کی سرزمین پر 75 سال سے غاصبانہ قبضہ کرتے ہوئے ان بھیانک جرائم کا ارتکاب کیا ہے، گھروں اور زرعی اراضی کو تباہ کیا ہے، خواتین اور معصوم بچوں کو قتل کیا ہے اور نوجوانوں کو قید اور تشدد کا نشانہ بنا کر فلسطینیوں کو ان کے تمام حقوق سے محروم کیا ہے۔
آج 75 سال گزرنے کے بعد جب کہ دنیا کی توجہ غزہ کی طرف مبذول ہو چکی ہے لیکن بدقسمتی سے امریکہ صیہونی حکومت کو ہتھیار اور مالی مدد فراہم کر رہا ہے۔ عالمی اداروں اور تنظیموں کی خاموشی اس سے بھی زیادہ افسوسناک ہے، یہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی بے حسی اور اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کی ان جرائم کے خلاف غیر موثر ہونے کی واضح دلیل ہے۔
آج پوری دنیا کی آنکھوں کے سامنے غزہ میں مظلوم اور بے دفاع خواتین اور بچوں سمیت کم از کم 30 ہزار افراد شہید ہو چکے ہیں۔ ایسی صورت حال میں کیا کرنا چاہیے؟
جو بات آج دنیا کے لوگوں پر واضح ہو چکی ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ عالمی نظام ایک غیر منصفانہ نظام ہے اور یہ بین الاقوامی ادارے اور ان کاطریقہ کار انسانیت کے لیے امن و سلامتی کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ حالیہ واقعات کی بناپر موجودہ عالمی نظام کو بدلنے اور اس کی جگہ نیا اور منصفانہ نظام لانے کی ضرورت ہے
اسلامی انقلاب کی فتح کے آغاز سے ہی اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنی خارجہ پالیسی کے بنیادی اصولوں کے تحت دنیا کے مظلوموں اور مظلوموں کی حمایت کی ہے ۔ الحمدللہ دوست اور برادر ملک الجزائر بھی اس معاملے پر ہم سے متفق ہے اور دونوں ممالک فلسطینی عوام کے حقوق اور قابض حکومت کی مذمت کے حوالے سے مشترکہ نقطہ نظر رکھتے ہیں جو کہ مسئلہ فلسطین کے لیے بہت اہم ہے۔ آج تمام آزاد ممالک فلسطین کی آزادی، بیت المقدس کی مرکزیت کے تحت ایک آزاد فلسطینی حکومت کے قیام اور صیہونی حکومت کو سزا کے بارے میں ہم سے متفق ہیں۔
جناب صدر، اگر ممکن ہو تو اس جنگ کو روکنے میں الجزائر جیسے ممالک کے کردار کے بارے میں کچھ بتائیں جن کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غیر مستقل رکنیت بھی ہے۔
صدر رئیسی: میں سمجھتا ہوں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ممالک، صدر اور اس کونسل کے تمام ارکان پر دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور انہیں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ الجزائر سلامتی کونسل میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے اور فلسطین کے مظلوم اور طاقتور لوگوں کی آواز بن سکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے جنگ کو روکنے اور غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے اور جنگ کو خطے میں پھیلنے سے روکنے کی وسیع کوششوں کے باوجودبعض لوگ ایران پر اس جنگ کو وسعت دینے کی کوشش کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ امریکی اور برطانوی حکام جنگ کا دائرہ وسیع کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں جب دنیا بھر کے لوگ غزہ میں صہیونی جرائم سے تنگ آچکے ہیں، ایک امریکی افسر نے صہیونی سفارت خانے کے سامنے ان جرائم کے خلاف احتجاجاً خود کو آگ لگا ئی۔ جبکہ انگلستان اور دیگر یورپی ممالک کے عوام سڑکوں پر بڑے بڑے جلوس نکال کر غزہ کے عوام پر حملے بند کرنے اور صیہونی حکومت کی حمایت بند کرنے کا مطالبہ کرتے اس کے باوجود مغربی حکام کان دھرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
ایک غلط تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ حالیہ جنگ 7 اکتوبر کو طوفان الاقصی آپریشن کے بعد شروع ہوئی۔ یہ صرف پروپیگنڈا ہے۔ اس جنگ کی بنیاد 75 سالہ صہیونی مظالم اور ناجائز قبضے میں پنہاں ہے۔ آج نہ صرف خطے کے لوگ بلکہ پوری دنیا کے لوگ بھی صیہونی حکومت کے ظلم و ستم سے تنگ آچکے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر حالات اسی طرح جاری رہے تو امریکہ اور صہیونی حکومت دونوں کے خلاف دنیا کے آزاد اور حریت پسند جوانوں کا غصہ بھڑکے گا۔ انگلستان اور مختلف براعظموں کے دوسرے ممالک میں اس کے اثرات ظاہر ہوں گے۔
مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اسلامی جمہوریہ ایران اور الجزائر کے مشترکہ موقف اور غزہ میں جرائم اور حملوں کو روکنے کی ضرورت پر غور کرتے ہوئے، علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں میں ان دونوں ممالک کے اثرورسوخ کو کس طرح سے خطے میں امن کے قیام کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے؟
صدر رئیسی: ہم امن و سکون، سلامتی اور اقوام کی ترقی کے لیے تمام علاقائی، غیر علاقائی اور بین الاقوامی یونینوں اور تنظیموں کی صلاحیت کو بروئے کار لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر اسرائیل کی جعلی حکومت نے خطے اور دنیا میں مظالم کا بازار گرم کررکھا ہے تو تمام ممالک کو اس کے خلاف متحد ہو جانا چاہیے ۔ ان ممالک کا پہلا ٹاسک اس کینسر کے پھوڑے کا جڑ سے اکھاڑنا ہوگا۔ ہمیں یقین ہے کہ فلسطینی شہداء اور مظلوموں کا پاکیزہ خون صیہونی حکومت کے خاتمے کی علامت ہے۔
اگر ممکن ہو تو مختلف سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں ایران اور الجزائر کے باہمی تعلقات کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں۔
صدر رئیسی: اسلامی جمہوریہ ایران اور الجزائر کے درمیان تعلقات خاص طور پر ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بہت اچھے رہے ہیں۔ الجزائر کی حکومت اور قوم کے بارے میں ایرانی عوام کے ذہنوں میں جو بات ہے وہ ایک بہادر، مزاحمتی اور استعمار مخالف قوم ہے جس نےاپنی سرزمین کے دفاع اور استعمار کو اس کی سرزمین سے نکال باہر کرنے کے لیے بہت سے شہداء کی قربانیاں دی ہیں اور الجزائرنے نہ صرف ہماری قوم کے لیے بلکہ دنیا کی تمام اقوام کے لیے استعمار کا مقابلہ کرنے میں خود کو ایک نمونے کے طور پر پیش کیا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان اچھے سیاسی تعلقات کو عملی طور پر ظاہر کیا جانا چاہیے ۔ آج ایرانی جوانوں نے پابندیوں اور دشمن کی دھمکیوں کو فرصت میں بدل دی ہیں جس کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران میں بڑی ترقی ہوئی ہے اور ہمارا ملک تجارتی اور اقتصادی شعبوں میں بہت اچھی صلاحیتوں کا حامل ہے۔ انجینئرنگ، تیل، گیس، پیٹرو کیمیکل اور دیگرشعبوں میں ہم نے اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اپنے تجربات الجزائر کو منتقل کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ایران اور الجزائر کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات بڑھانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان مستقبل میں باہمی تعاون کے لیے آپ کے ذہن میں کون سے اقتصادی منصوبے ہیں؟
صدر رئیسی :میں سمجھتا ہوں کہ الجزائر کے ساتھ جن منصوبوں کو ہم آگے بڑھا سکتے ہیں، ان میں توانائی اور تجارت کے شعبوں کے حوالے سے منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔ کرنسی اور بینکنگ کے شعبے میں تعاون بھی ان مسائل میں سے ایک ہے جس کی منصوبہ بندی یقینی طور پر کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس تعاون کے لیے بہت اچھے میدان اور پلیٹ فارم ہیں، خاص طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اچھے تجربات ہیں اور اس میدان میں ہم الجزائر کے ساتھ اچھا تعاون کر سکتے ہیں۔
جناب صدر، میں نے دو طرفہ تعلقات کے ساتھ ساتھ ایران کے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بات کی، کچھ ممالک کے ساتھ آپ کے میل جول میں کیا رکاوٹ ہے؟
صدر رئیسی: ہمیں عرب ممالک سے کوئی مسئلہ نہیں ہے اور دشمن کی جانب سے عرب ممالک اور خطے میں ایرانو فوبیا پیدا کرنے کی کوششوں کے باوجود آج اللہ کا شکر ہے کہ عرب ممالک کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات ہیں۔
دشمن نے دو کام شروع کیے، پہلا: ایرانو فوبیا پیدا کرنا اور دوسرا: عرب اور اسلامی ممالک کو صیہونی حکومت کے قریب لانا یا تعلقات کو معمول پر لانا۔ میرے خیال میں دشمن اور خاص طور پر امریکی دونوں کاموں میں ناکام رہے۔ وہ ایران فوبیا کے ذریعے ہمیں الگ تھلگ کرنا چاہتے تھے لیکن ناکام ہوئے ۔آج ایران علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں میں پہلے سے زیادہ فعال کردار ادا کررہا ہے۔
دوسری طرف دشمن نے صیہونی حکومت کے ساتھ اسلامی ممالک اور خطے کے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کی تاکہ اسرائیل کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ وجہ یہ ہے کہ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ ممالک بھی جنہوں نے صیہونی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو بظاہر معمول پر لایا ہے، وہ بھی اپنی قوموں کے سامنے اپنے اقدامات کا دفاع نہیں کر سکتےیعنی ان کے سامنے سر نہیں اٹھا سکتے۔ وہ اپنی ہی قوموں کے سامنے شرمندہ ہیں کیونکہ انہوں نے اس ظالم حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لایا جس کے ہاتھ مظلوم فلسطینی عوام کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور آج اسے دنیا کی سب سے سفاک، مجرم، ظالم اور قابل نفرت حکومت کہا جاتا ہے۔ دنیا کا کوئی ملک اپنی قوم کے سامنے سر اٹھا کر یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ ہم نےصہیونی حکومت سے تعلقات قائم کیے، یا اپنے تعلقات معمول پر لائے!تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کرنے والوں نے واقعی فلسطینی عوام کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور فلسطینی عوام انہیں معاف نہیں کریں گے۔ صیہونی حکومت کے اس قدر دلیر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اسے محسوس ہوتا ہے کہ بعض ممالک اس کے جرائم سے لاتعلق ہو گئے ہیں۔
سعودی عرب کے ساتھ ایران کے تعلقات کی بحالی سے خاص طور پر صیہونی حکومت پریشان ہے، اس حوالے سے کیا کہیں گے؟
صدر رئیسی: سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تعلقات ہیں۔ ہمارے سیاسی تعلقات قائم ہوچکے ہیں اور صیہونی حکومت اسلامی ممالک کے درمیان تعلقات اور باہمی اتحاد سے پریشان ہوگی ۔ صہیونی حکومت کی جانب سے ایران کے خلاف پروپیگنڈوں اور سازشوں کی ایک بنیادی وجہ یہی ہے لیکن قرآن کہتا ہے کہ تم غصے اور پریشانی میں مرجاؤ۔
جناب صدر، کسی ایرانی اہلکار بالخصوص اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کے ساتھ ہونے والی ہر گفتگو میں فطری طور پر ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ ایران کا جوہری معاملہ اور مغرب کے ساتھ آپ کے تعلقات کہاں تک پہنچ چکے ہیں؟ ایران کے جوہری معاملے کے حوالے سے تازہ ترین خبر کیا ہے؟
صدر رئیسی: ایٹمی توانائی اسلامی جمہوریہ ایران کا فطری حق ہے۔ ہمیں اس کو اپنے لوگوں کی بھلائی اور بہتری کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ جوہری توانائی سے ادویات، صنعت، کان کنی، توانائی، تیل اور گیس اور پیٹرو کیمیکلز میں استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
مغربی ممالک بالخصوص امریکی جس چیز پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایران جوہری توانائی کو ایٹم بم بنانے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے جس کے بارے میں ہم کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ہم جوہری توانائی کو پرامن طریقے سے استعمال کریں گے اور اب تک اس کے استعمال میں کوئی غلط اقدام نہیں کیا گیا ہے۔ ایٹمی توانائی کی ایجنسی ہماری ایٹمی صنعت کی نگرانی کرتی ہے اور آج تک 15 بار باضابطہ طور پر اعلان کر چکی ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام پرامن ہے لیکن مغربی ان بیانات پر اعتبار نہیں کرتے ۔ خود بیانیہ جاری کرتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ آج ممالک اسلامی جمہوریہ ایران کی پرامن ایٹمی سرگرمیوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ ان کے پاس خود ایٹم بم ہے اور وہ ایک ایسے ملک کی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں جس نے آج تک یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایٹم بم کی تلاش میں نہیں ہے۔ بلکہ صرف ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال کی تلاش میں ہے۔
یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ ہم پرامن ایٹمی توانائی کے استعمال کو اسلامی جمہوریہ کا ناقابل تنسیخ حق سمجھتے ہیں ۔ یہ ممالک ایٹمی وار ہیڈز رکھنے والی صیہونی حکومت سے کیوں خاموش ہیں؟ یورپی اور امریکی حکام اس صیہونی حکومت کے بارے میں کیوں فکر مند نہیں ہیں جس کے پاس ایٹمی وار ہیڈ ہے؟غزہ میں صیہونی حکومت کے ان جرائم کے دوران اس حکومت کے ایک وزیر نے سرکاری طور پر فلسطینی عوام کو ایٹمی بموں کے استعمال کی دھمکی دی تھی۔
وہ ایسی طرزِ حکومت کے بارے میں کیوں فکر مند نہیں ہیں، بلکہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں فکر مند ہیں، جس کے پاس نہ صرف ایٹمی بم نہیں ہے، بلکہ اس کی ایٹمی سرگرمیاں بھی پرامن ہیں، اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی نے کئی بار اس کی تصدیق کی ہے۔
یہ دنیا کے لوگوں کے لیے ایک اہم نکتہ ہے۔ یہ واضح ہے کہ ان کا مسئلہ ایران ہے، ایٹمی بم نہیں، وہ اسلامی جمہوریہ ایران پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں، جو طاقتور ہے، اپنے پاؤں پر کھڑا ہے، اور اس کی ایٹمی صنعت مقامی ہے۔ جب صیہونی حکومت نے اسلامی جمہوریہ ایران کے ایٹمی سائنسدانوں کو قتل کرنے کی کوشش کی تو اس نے سوچا کہ ہمارے ملک میں ایٹمی صنعت کو زمین بوس کر دیا جائے گا، لیکن ایٹمی سرگرمیاں جاری ہیں، کیونکہ یہ صنعت ہمارے ملک میں وسعت اختیار کر چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران نے کبھی بھی مذاکرات کی میز کو نہیں چھوڑا۔ ہم نے میٹنگ کے دوران دنیا اور رکن ممالک کے سامنے اپنے درست اور معقول الفاظ کا اعلان کیا ہے۔
ہم نے ابھی بھی مذاکرات کی میز نہیں چھوڑی کیونکہ ہمارے پاس منطق ہے اور جن کے پاس منطق ہے وہ مذاکرات سے پریشان نہیں ہوتا۔ ہمارا ایک معاہدہ تھا کہ اس معاہدے کی سب سے بڑی خلاف ورزی امریکہ نے کی ہے۔ امریکیوں نے سرکاری طور پر آکر تمام دنیا کے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف ٹرمپ نے یہ کیا ہے، معاہدوں اور معاہدوں کی خلاف ورزی کرنا امریکہ کی فطرت ہے۔ چنانچہ قرآن استعمار ی قوتوں کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ معاہدہ توڑنے والی ہیں۔ امریکی اس معاہدے سے باضابطہ طور پر دستبردار ہو گئے اور یورپی ممالک نے اپنی مرضی سے پیچھے ہٹ کر اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ اس جوہری معاہدے کی پاسداری کرنے والا صرف اسلامی جمہوریہ ایران تھا۔ اس لیے پہلی بات یہ کہ ایران نے مذاکرات کی میز نہیں چھوڑی، دوسری بات یہ کہ ایران نے امریکیوں کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی اور یورپی ممالک کی جانب سے وعدوں پر عمل نہ کرنے کے باوجود اپنا وعدہ قائم رکھا ہے۔
اس گفتگو کے اختتام پر آئیے ایک بار پھر پہلے نکتے کی طرف لوٹتے ہیں، کیا الجزائر میں منعقدہ گیس برآمد کرنے والے ممالک کی اسمبلی کے رہنماؤں کا ساتواں اجلاس تعاون کو وسعت دینے اور متنوع بنانے میں معاون ثابت ہوگا؟
صدر رئیسی: میں سمجھتا ہوں کہ گیس برآمد کرنے والے ممالک کے سربراہان کی ساتویں میٹنگ میں جو بات چیت ہوئی وہ اہم نکات تھے اور سیکرٹریٹ کو ان کا خلاصہ کرنا چاہیے تاکہ ہم گیس برآمد کرنے والے ممالک کے درمیان تعاون بڑھا سکیں۔
میں نے اس اجلاس میں اعلان کیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران تکنیکی اور انجینئرنگ خدمات اور توانائی اور گیس کے شعبے میں اپنے تجربات کو دوسرے ممالک کو منتقل کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس اجلاس میں جمہوریہ الجزائر کے معزز صدر کے الفاظ اور اس اجلاس میں ممبران کے درمیان موجود نقطہ نظر کو مدنظر رکھتے ہوئے سب کا خیال ہے کہ آج خطے اور دنیا کی گیس کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے،گیس پیدا کرنے والے اور برآمد کرنے والے ممالک کو چاہیے کہ باہمی تعاون کو مزید فروغ دیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ تنظیم جناب عبدالمجید تبون کی سربراہی میں خطے اور دنیا میں گیس پیدا کرنے اور برآمد کرنے والے ممالک کے درمیان تعاون، ہم آہنگی اور پیشرفت کو فروغ دینے کی سمت میں ایک بڑا قدم اٹھا سکتی ہے۔
الجزائر کے سفر کے دوران آپ نے الجزائر کی عظیم الشان مسجد کا بھی دورہ کیا۔ رمضان المبارک کی بھی آمد آمد ہے اگر الجزائر کے عوام بالخصوص نوجوانوں کے لیے اس حوالے سے کوئی پیغام ہے تو ہمیں بتائیں۔
صدر رئیسی: سب سے پہلے، میں الجزائر میں اس جامع اور بڑی مسجد کی تعمیر پر صدر سمیت تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ مسجد اللہ تعالیٰ کی عبادت اور خدا سے رابطے کی جگہ ہے۔ اس مسجد میں جو بہت بڑا ہجوم جمع ہو گا اور جو سائنسی اور ثقافتی مراکز اس مسجد میں موجود ہیں وہ یقیناً ملک الجزائر کے لیے باعث فخر ہوں گے۔ کل رات الجامع مسجد کے دورے کے دوران میں نے اس خوبصورت اور قابل قدر اقدام کو سراہا اور شکریہ ادا کیا۔
مسجد کے اہم کاموں میں، اللہ تعالیٰ کی عبادت گاہ اور مسلمانوں کے درمیان رابطے کے علاوہ، اس مسجد اور الجزائر کے اندر اور باہر دیگر مساجد اور ثقافتی مراکز کے درمیان رابطہ ہے۔ مسلمان عوام کو دوسرے ممالک بالخصوص فلسطین کے لوگوں کے حالات و واقعات سے آگاہ کرنا بہت ضروری ہے۔ اس مسجد میں ایسی نشانیاں لگائی گئی ہیں کہ لوگ فلسطین کو ہمیشہ یاد رکھیں گے اور ان نشانیوں کو دیکھنا میرے لیے بہت یادگار تھا۔
میں امید کرتا ہوں کہ عبادت کا یہ مرکز خاص طور پر رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے موقع پر عزیزوں بالخصوص الجزائر کے پیارے نوجوانوں کے لیے سکون و اطمینان کا مرکز ثابت ہو گا اور وہ تمام مسلمانوں بالخصوص مظلوموں کے ساتھ اپنے تعلق کو ہمیشہ قائم رکھیں گےہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ظالموں اور جابروں اور فلسطینیوں پر ظلم کرنے والوں کو نیست و نابود کر دے گا اور انشاء اللہ فلسطین کے مظلوم اور طاقتور لوگوں کو آزاد کر دے گا اور انشاء اللہ بیت المقدس آزاد ہو جائے گا۔
میں یہ بھی امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ الجزائر کے عوام اور الجزائر کے پیارے نوجوانوں کو کامیابی عطا فرمائے گا کہ وہ اپنی زندگیوں میں ہمیشہ نیک اور اچھے مسلمان کی طرح زندگی بسر کریں اور ان کی زندگیوں میں ہمیشہ امن، سلامتی اور سکون ہو۔