[]
سن دو ہزار تیئیس میں سویڈن کی اسلحے کی برآمدات میں اٹھارہ فیصد کا اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ گزشتہ برس سویڈن نے سولہ بلین یورو کا عسکری ساز و سامان فروخت کیا۔
گزشتہ برس سویڈن کی اسلحے کی برآمدت میں اٹھارہ فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ سویڈن سے اسلحہ خریدنے والے ٹاپ ٹین مالک میں پاکستان اور بھارت بھی شامل ہے۔یوکرین کی جنگ کے باعث یورپی ممالک کو عسکری ساز و سامان کی کمی کا سامنا ہے۔ روسی عسکری جارحیت کا مقابلہ کرنے کی خاطر نیٹو رکن ممالک کییف حکومت کو ہر ممکن مدد فراہم کر رہے ہیں، جس میں جدید اسلحہ بھی شامل ہے۔
اس صورت حال میں سویڈن کی اسلحہ ساز انڈسٹری کو ایک بوم ملا ہے۔ سن دو ہزار تیئیس میں اس شمالی یورپی ملک کی اسلحے کی برآمدات میں اٹھارہ فیصد کا اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ گزشتہ برس سویڈن نے سولہ بلین یورو کا عسکری ساز و سامان فروخت کیا۔ زیادہ تر اسلحہ یورپی یونین کے رکن ممالک کو ہی فروخت کیا گیا۔ اس کے علاوہ انتالیس دیگر ایسے ممالک نے بھی یہ اسلحہ خریدا، جو سویڈن کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔
سویڈن کی دفاعی صنعت ترقی کر رہی ہے۔ ساب کمپنی Gripen فائٹر جیٹ، گلوبل آئی سرویلنس ایئر کرافٹ اور اینٹی ٹینک ہتھیار بنانے میں مہارت حاصل کر چکی ہے۔ سویڈش انسپکٹوریٹ فار اسٹریٹیجک پراڈکٹس (آئی ایس پی) کے ڈائریکٹر کارل یوہان کے مطابق عالمی سطح پر سکیورٹی کی مخدوش صورت حال کے باعث سویڈش دفاعی صنعت کو اسلحہ ایکسپورٹ کرنے کے مزید کئی آرڈرز ملیں گے۔
یوہان نے مزید کہا کہ سویڈش عسکری ساز و سامان بالخصوص یوکرین میں بہت زیادہ پسند کیا جا رہا ہے۔ ترکی بھی سویڈن کے ہتھیاروں کا ایک اہم خریدار ملک ہے۔ گزشتہ سال انقرہ حکومت نے چار ملین کرونا (356,000 یورو) کا عسکری ساز و سامان خریدا۔
اگرچہ سویڈش آرمز انڈسٹری کا کہنا ہے کہ وہ جمہوریت اور آزادیوں کی ضمانت یقینی بنانے کی کوشش میں ہے تاہم عالمی امن کے لیے فعال غیر سرکاری ادارے سوینسکا فریڈز کا الزام ہے کہ سویڈن غیر جمہوری حکومتوں کے علاوہ ایسے ممالک کو بھی اسحلہ فروخت کر رہا ہے، جہاں انسانی حقوق کی پامالیاں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ اس ادارے نے مزید کہا کہ ان ممالک کے لوگ اسلحے کی صنعت کی اس ترقی کی ‘کافی زیادہ قیمت چکا‘ رہے ہیں۔
سویڈن سے اسلحہ خریدنے والے ٹاپ ٹین ممالک میں پاکستان اور بھارت کے علاوہ امریکہ، جرمنی، برازیل، ناروے، فرانس، چیک جمہوریہ، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات بھی شامل ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
;