LAND TITLING ACT. 2022 کی روشنی میں نوٹری دستاویزات کی اساس پر خریدی ہوئی جائیدادیں ضبط ہوسکتی ہیں

[]

اندھیر نگری میں اندھے قانون پاس ہونے لگے ہیں۔ موجودہ حکومت جو بھی چاہے کرسکتی ہے اور کربھی رہی ہے ۔ آبادی کے ایک بڑے حصہ کو دھارمک رنگ میں رنگ کر اور مذہبی جنون میں مبتلا کرکے ووٹ حاصل کئے گئے اور اسی Mandate کے بل بوتے پر خلافِ دستور اور خلافِ انسانیت قوانین پاس کئے جارہے ہیں۔

سپریم کورٹ بھی ایک طرح سے لاچار اور بے بس ہوگئی ہے اور اس کے ججس دو مختلف نظریات کے حامل ہیں‘ یعنی زعفرانی اسکولس کے تربیت یافتہ ہیں۔ ایسے ججس کے سامنے اگر کسی قانون یا حکومتی اقدام کے دستوری جواز کو چیلنج کیا جائے تو نتیجہ جو برآمد ہوگا آپ کے سامنے ہے۔

گو کہ عدالت ِ عظمٰی دو دھڑوں میں بانٹ دی گئی ہے پھر بھی ججس کا ایک گروپ ایسا ہے جودستور و جمہوریت کی بالادستی پر یقین رکھتا ہے جس کا ثبوت الکٹورل بانڈ پر کئے گئے فیصلہ سے ملتا ہے۔ لیکن مشکل یہاں یہ ہے کہ جو مقدمات حکومت کے غیر دستوری اور غیر جمہوری اقدام کے خلاف دائر کئے جاتے ہیں‘ ان کو صرف ان ہی ججوں کے اجلاس پر پیش کیا جاتا ہے جو زعفرانی حکومت اور اس کے نظریات سے اتفاق رکھتے ہیں۔

سپریم کورٹ میں ایک جج ماسٹر آف روسٹر ہوتا ہے جو مقدمات مختلف ججس کے اجلاس کو بھیجتا ہے۔ یہ سوئے اتفاق ہے یا سازش کہ جو فی الوقت ماسٹر آف روسٹر ہیں ان کا نام جسٹس بیلاتریویدی ہے۔ یہ محترمہ اپنی مرضی سے جس جج کے اجلاس پر چاہیں مقدمات پیش ہونے کا حکم دے سکتی ہیں۔

ہمیں یہ بات لکھتے ہوئے ذرا بھی خوف نہیں کہ محترمہ مذکور اپنی مرضی سے اپنے ہم خیال ججس کے اجلاس پر مقدمات کو پیش کرتی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کے قوانین ‘ اقدامات‘ احکامات میں مداخلت نہ کی جائے اور ان کو موافق دستور اور قانون قراردیا جائے ۔ قبل ازیں ماسٹر آف روسٹر چیف جسٹس آف انڈیا ہوا کرتے تھے اور اب یہ اختیارات ان کے پاس نہیں کہ کسی بھی دائر کئے ہوئے مقدمہ کی خود سماعت کریں یا کسی دوسرے اجلاس پر منتقل کریں۔

بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں‘ کس سے منصفی چاہیں

اگر ہم شاعر ہوتے تو ملک کی عدلیہ کی عظمت کی پامالی پر ایک مرثیہ لکھتے۔

اس مضمون پر قبل ازیں زائد از ایک مرتبہ مضامین لکھے گئے اور مالکینِ جائیداد میں شعوری مہم چلائی گئی جو بے اثر ثابت ہوئی۔ لیکن چند حضرات نے خواہش کی ہے کہ اس مضمون پر دوبارہ روشنی ڈالی جائے کیوں کہ ہوائیں تیزی سے بدل رہی ہیں اور آثار و قرائن ایسے ہیں کہ 2029تک یہی صورت رہے گی اور یہ وہ سال ہوگا جب ملک کی ساری ریاستوں اور پارلیمان میں ایک ساتھ الیکشن ہوں گے اور پلان کے مطابق سارے ملک میں زعفرانی پرچم لہرائے گا ۔

دستور ختم ہوجائے گا اور اس کی جگہ منوسمرتی لے لے گی ۔ ملک کو ہندوراشٹر میں تبدیل کردیا جائے گا۔ اس وقت مسلمانوں‘ عیسائیوں‘ سکھوں اور پسماندہ طبقات ‘ درج فہرست اور قبائلی لوگوں کے تمام حقوق چھین لئے جائیں گے اور ملک سے جمہوریت کی ارتھی اٹھائی جائے گی اور ایک ہندوسامراج کی داغ بیل ڈالی جائے گی۔

زیرِ تحریر مضمون میں لینڈ ٹائٹلنگ ایکٹ پر بحث کی جارہی ہے۔ یہ ایک بہت ہی خطرناک قانون ہے جو سارے ملک میں لاگو ہوچکا ہے۔ اس قانون کی رو سے وہی شخص صاحبِ جائیداد کہلانے کا حقدار ہوگا جس کی ملکیت یا حقِ مالکانہ (TITLE)کو قانون کے تحت مقرر کی گئی اتھاریٹی تسلیم کرے گی۔

کوئی بھی شخص محض رجسٹر شدہ دستاویزات یا وراثت کی اساس پر جائیداد کا مالک تصور نہیں کیا جائے گا۔ گویا رجسٹریشن ایکٹ جو زائد از130 سال سے رائج العمل ہے ‘ بے معنی اور بے مطلب ہوکر رہ جائے گا اور کسی بھی رجسٹرشدہ دستاویز کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہے گی۔

اگر مقررکردہ اتھاریٹی حقِ ملکیت کو تسلیم نہ کرے تو اپیل کی گنجائش رہے گی پھر اس کے بعد ہائیکورٹ سے بذریعۂ رٹ رجوع ہوسکتے ہیں۔ گویا صاحبِ جائیداد ہوتے ہوئے بھی آپ کو اپنی جائیداد کا حقِ مالکانہ نہیں ملے گا۔

اس ضمن میں گوگل پر (Land Titling Act) ٹائپ کرکے پورے قانون کو پڑھا جاسکتا ہے۔

ہماری اور وکلاء برادری کا خیال ہے کہ اس قانون کو (Selectively Traget) کے لیے استعمال کیا جائے گا اور سب سے پہلے شکار ہندوستان کے مسلمان ہوں گے جن کی جائیدادوں پر آج کل بلڈوزر چل رہے ہیں لیکن اس قانون میں لاکھوں بلڈوزروں کی طاقت موجودہے جو مسلمانوں کو بے گھر‘ بے در اور بے نوا کردے گا۔

یہ ایک یقینی بات ہے کہ سب سے پہلے شکار وہ لوگ ہوں گے جن کی اپنے مکانوں‘ زمینات پر قبضہ کی اساس نوٹری دستاویزات ہیں۔ یہ ایک قانونی حقیقت ہے کہ نوٹری دستاویزمالکانہ حق عطا نہیں کرتا۔ قانون کی روشنی میں کیا نوٹری دستاویزی اساس ‘ کیا رجسٹر شدہ دستاویز کسی کی بھی کوئی اہمیت نہیں ۔

سب سے پہلے یہ بات کہ دستوری اساس پر یہ قانون ایک کھوٹا سکہ ہے کیوں کہ دستور نے زیرِ آرٹیکل (400-A) جائیداد رکھنے کا حق عطا کیا ہے اور کسی کو بھی بشمول حکومت یہ حق حاصل نہیں کہ کسی شخص کو اس کی جائیداد سے محروم کرے۔ لیکن جب حصولِ انصاف کے تمام راستے بند ہوچکے ہیں تو سوائے مایوسی کے کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔

پھر بھی روشنی کی ایک کرن ہے جو آپ کو قانون کے تحت کی جانے والی کارروائی میں مدد بہم پہنچاسکتی ہے۔
اس ضمن میں مزید معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ یاد رکھئے جب سب دروازے بند ہوجائیں پھر بھی ایک راستہ رہ جاتا ہے۔

Helpline : 040-23535273- 9908850090
کسی بھی وقت استفسارات کئے جاسکتے ہیں۔



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *