[]
شمس نوید عثمانی
کہا جاتا ہے کہ شری کرشنا مینن اپنے قیام لندن کے زمانے میں ایک دن اپنے حلقہ احباب میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک دوست نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا :
’’یہ سامنے بیٹھا ہوا تمہارا دوست یہودی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کے پاس خدا کی ایک کتاب ہے جس کا نام تو ریت ہے اور یہ علم آسمانی کی کتاب خدا نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعے دی تھی۔‘‘
’’میں یہ بات جانتا ہوں‘‘ کرشنا مینن نے جواب دیا۔
اب اسی دوست نے ایک دوسرے عیسائی دوست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’یہ شخص عیسائی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس کے پاس بھی خدا کی ایک کتاب ہے جس کا نام انجیل ہے اور یہ علم خداوندی کا تحفہ خدا نے حضرت عیسیٰ مسیح (علیہ السلام) کے ذریعہ عطا کیا تھا؟‘‘۔
’’میں یہ بھی جانتا ہوں‘‘ کرشنا مینن نے ہلکے سے تبسم کے ساتھ کہا۔ جیسے ان شہرہ آفاق باتوں کے دہرانے پر انھیں تعجب ہو رہا ہو۔ لیکن بولنے والا مکمل سنجیدگی سے بول رہا تھا۔ اس نے تیسرا عنوان چھیڑتے ہوئے اور ایک مسلمان دوست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’یہ ہمارا مسلمان دوست ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس کے پاس بھی خدا کی ایک کتاب ہے، قرآن۔ اور خدا نے یہ علم جس انسان کے ذریعہ دیا اس کا نام حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے۔‘‘
’’ارے بھائی میں یہ بھی جانتا ہوں‘‘ کرشنا مینن نے حیرت کے آخری عالم میں جواب دیا۔
’’بے شک‘‘۔ وہی دوست بولا۔ ہم اور تم یہ سب باتیں خوب جانتے ہیں مگر دوست ہم میں سے کوئی یہ نہیں جانتا کہ وید جس کو تم ٹھیک اسی طرح خدا کا سب سے پہلا، سب سے قدیم، سب سے عظیم علم اور کلام مانتے ہو، اسے آد گرنتھ (आदि ग्रन्थ) یعنی اولین مصحف کہتے ہو، اس کو خدا سے لینے اور مخلوق کو دینے کا سب سے پہلا انسانی ذریعہ کون تھا آخر؟‘‘
کہا جاتا ہے کہ پوری محفل کی سمت سے اس بار سوالیہ تبسم اور تعجب کے سامنے پہلی بار خود کرشنا مینن سر سے پاؤں ایک سوالیہ نشان بن گئے۔ ایک ایسے فکری سناٹے میں گم ہو گئے جیسے پہلی بار انھیں یہ ایک ٹھوس سوال محسوس ہوا ہو۔ جیسے پہلی بار انھیں اپنے ویدک علماء کے موجودہ علمی موقف میں ایک حقیقی خلاء کا احساس ہوا ہو۔ توریت، انجیل اور قرآن مجید کے خدا سے انسان تک پہنچنے کے ذرائع تو معلوم ہیں لیکن اگر وید خدا کا کلام ہے تو اسے لانے والا نبی کون تھا؟
یہ واقعہ چاہے سچا ہو چاہے افسانہ، اس میں شک نہیں رہتا کہ یہ فطری سوال ہر ایک دیدک دھرم کے ماننے والے کے سینے میں ہزاروں سال سے اندر ہی اندر مسلسل کھٹک رہا ہوگا۔
حضرت نوحؑ کی امت کا نبی بھی کھویا ہوا ہے
ہندو قوم‘ رامائن اور مہابھارت کو انسانوں کی لکھی ہوئی کتابیں تسلیم کرتی ہے، لیکن ویدوں کے بارے میں ان کے سواد اعظم کا عقیدہ ہے کہ یہ کلام الٰہی ہیں۔ اس کے باوجود وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ یہ کس پیغمبر کے ذریعہ دنیا میں آئے۔ اپنے نبی کو انھوں نے دیو مالاؤں میں گم کردیا۔ دنیا کی ہر مذہبی قوم کسی نہ کسی شخصیت کو اپنی مذہبی کتب سے منسوب نبی مانتی ہے، لیکن ہندو قوم وہ واحد مذہبی قوم ہے جس کا اصل نبی کھویا ہوا ہے۔ اس حقیقت پر نظر رکھیں اور بخاری شریف کی مندرجہ ذیل حدیث پر غور کریں:
’’ حضرت ابو سعیدؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن حضرت نوحؑ کو لایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا (کہ کیا انھوں نے اپنی امت کو احکام خداوندی) پہنچائے تھے؟ وہ عرض کریں گے: ’’بے شک اے میرے پروردگار‘‘۔ پھر حضرت نوحؑ کی امت سے پوچھا جائے گا کہ کیا نوحؑ نے تم تک ہمارے احکام پہنچائے تھے؟ وہ لوگ انکار کر یں گے اور کہیں گے: ’’ہمارے پاس تو کوئی بھی ڈرانے والا نہیں آیا تھا؟ اور پھر حضرت نوحؑ سے پوچھا جائے گا۔ تمہارے گواہ کون ہیں؟ اور وہ کہیں گے: ’’میرے گواہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کی امت کے لوگ ہیں؟‘‘ اور اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تب تمھیں پیش کیا جائے گا اور تم یہ گواہی دو گے کہ حضرت نوحؑ نے احکام پہنچائے تھے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی:
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا (البقرہ: ۱۴۳) (بخاری۔ بحوالہ مشکوٰۃ باب حساب والقصاص والميزان)
اب ذرا غور فرمائیں۔ ایک طرف تو حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوحؑ کی امت اپنے رسول کو پہچانے سے انکار کر دے گی اور دوسری طرف ہم یہ جانتے ہیں کہ تمام مذہبی قوموں میں صرف ہندو قوم کا نبی کھویا ہوا ہے۔
پھر سو چیں۔ ایک طرف تو ہم یہ جانتے ہیںکہ ہندو قوم تبدیل ہو کر امت محمدی بنے گی اور موجودہ امت محمدی کے افراد اس تبدیلی کا ذریعہ بنیں گے اور دوسری طرف حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قوم نوحؑ کے اپنے نبی کو پہچاننے سے انکار کے بعد امت محمدی گواہی دے گی کہ حضرت نوحؑ نے اپنی قوم کو احکام خداوندی پہنچائے تھے۔ یعنی گواہی دینے والی امت محمدی کے افراد حضرت نوحؑ کی امت کو اور ان سے حضرت نوحؑ کے رشتے کو پہچانتے ہوں گے۔
کیا یہ واضح دلیل اس بات کی نہیں محسوس ہوتی کہ موجودہ ہندو قوم حضرت نوحؑ کی امت ہے۔
ہندو قوم‘ قوم نوح ہے
ویسے بھی ویدک دھرم دنیا کے تمام مذاہب میں متفقہ طور پر سب سے پرانا مذہب ہے اور حضرت نوحؑ دنیا کے سب سے پہلے صاحب شریعت رسول تھے۔
لیکن ابھی یقین کرنے سے پہلے خود ویدک دھرم سے معلوم کرنا بھی ضروری ہے۔ ابھی ہم چاہے ہندو قوم کے اس دعوے کو تسلیم نہ کریں کہ وید کلام الٰہی ہیں لیکن یہ تو دیکھیں کہ
یہ کتابیں جن کو ہندو قوم کلامِ الٰہی قرار دیتی ہے اپنا نبی کون کونسا بتاتی ہے؟ فرانسیسی مصنف ڈیوبائس (A.J.A Dubios) جس نے چالیس سال تک ہندو مذہب اور ہندوستانی تہذیب کا مطالعہ کیا اور ہندو مذہبی رسم و رواج پر آج تک کی سب سے مستند اور ضخیم کتاب لکھی، اس نے اپنی کتاب (Hindu Manners, Customs & Ceremonies) (ہندو شعائر مراسم و مناسک) میں جو حقیقتیں بیان کی ہیں وہ شاید قارئین کی دلچسپی کا سبب بنے بغیر نہیں رہ سکیں گی۔
’’۔۔۔مختصر یہ کہ ایک مشہور شخصیت جس سے ہندوؤں کو بہت عقیدت ہے اور جسے وہ مہانووو (MahaNuvu) کے نام سے جانتے ہیں ۔ (سیلاب کی) تباہی سے ایک کشتی کے ذریعہ بچ نکلی جس میں سات مشہور رشی بھی سوار تھے۔۔۔ ’’مہانووو‘‘ دو الفاظ کا مرکب ہے۔ مہا کے معنی عظیم اور ’’نووو‘‘ بلا شک و شبہ (حضرت) نوحؑ ہی ہیں۔۔۔ (Hindu Manners, Customs & Ceremonies P.49)
’’۔۔۔عملاً یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ ہندوستان اس سیلاب عظیم کے فوراً بعد آباد ہوا تھا، جس نے پوری دنیا کو ویران کر دیا تھا ۔۔۔‘‘ (Hindu Manners, Customs & Ceremonies P.100)
’’۔۔۔مارکنڈ یہ پران اور بھاگوت میں اس کا بہت واضح بیان ہے کہ اس حادثہ میں تمام نسل انسانی ختم ہوگئی تھی، سوائے سات مشہور عبادت گزار رشیوں کے جن کا میں نے بہت سے مقامات پر ذکر کیا ہے۔ یہ سات رشی ایک کشتی پر بیٹھ کر عالمگیر تباہی سے بچ سکے تھے۔ اس کشتی کو وشنو (خدا) خود چلا رہا تھا۔ ایک اور عظیم شخصیت جو بچ جانے والوں میں تھی، وہ منو کی تھی، جس کو میں نے دوسرے مقامات پر ثابت کیا ہے کہ (حضرت) نوحؑ کے سوا کوئی نہیں تھی۔۔۔ جہاں تک مجھے علم ہے ان تمام مشرک اقوام میں کسی نے سیلاب کو اتنی تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کیا ہے اور اس واقعہ کی تفصیلات حضرت موسیٰؑ کی توریت میں بیان کردہ تفصیلات سے کسی قوم کی تحریروں میں اتنی مماثلت نہیں رکھتیں جتنی کہ ان ہندو کتابوں میں ہے جن کا میں نے ذکر کیا ہے۔ یہ قابل ذکر بات ہے کہ یہ شہادت ہمیں اس قوم میں ملی ہے جس کے قدیم ہونے پر سب متفق ہیں۔ (Hindu Manners, Customs & Ceremonies P.416-417)
حضرت نوحؑ اور سیلاب نوح کے واقعات بہت تفصیل کے ساتھ بھو شیہ پران اور تسیہ پران میں بھی بیان ہوئے ہیں جن کے حوالے ہم آئندہ مضامین میں پیش کریں گے۔
منو کا لفظ بہت سی ہندو مذہبی شخصیات کے لیے استعمال ہوا ہے۔ جیسے حضرت آدمؑ کے لئے، بتایا گیا ہے کہ منو کے بائیں حصہ سے شت روپا (शतरूपा) یعنی حضرت حواؑ پیدا ہوئیں۔ (رام چرت مانس از ہنومان پرساد پوت دار، گیتا پریس گورکھپور، ایڈیشن ۱۵، ص: ۱۵۴، اور ہندو مذہب کی معلومات از خواجہ حسن نظامی دہلوی، حلقہ مشائخ دہلی، ایڈیشن ۲۰دسمبر ۱۹۲۷ء ص:۶) لیکن پرانوں، ویدوں اور دیگر ہندو مذہبی کتب میں سب سے زیادہ تفصیل سے جس منو کا تذکرہ ہے وہ حضرت نوحؑ ہی ہیں ۔
ویدوں میں حضرت نوحؑ کا ذکر منو کے نام سے پانچ مقامات پر آیا ہے۔
ویدوں کا انگریز مفسر وید کے ایک منتر میں آنے والے لفظ ’’منو‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’منو (نوحؑ) لاجواب شخصیت اور انسانوں کے نمائندے تھے۔ تمام نسل انسانی کے باپ (سیلاب کے بعد آدم ثانی کی حیثیت سے) اور پہلی شریعت کے شروع کرنے والے تھے‘‘۔ (گرنتھ کا تشریحی نوٹ۔ رگ وید: ۱۔۱۳۔۴ کے ذیل میں ہے)
پرانوں اور ویدوں میں حضرت نوحؑ کی تفصیلات کے علاوہ ایک اور بہت اہم ثبوت اس قوم کے حضرت نوحؑ سے متعلق ہونے کا ہم پیش کر رہے ہیں۔
اکثرا قوام کا اپنے انبیاء سے تعلق کا ایک مظہر یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ان کے زمانے سے اپنا سال یا سن شمار کرتے ہیں جیسے مسلمان اپنا سن ہجری حضرت محمدؐ کی ہجرت سے شمار کرتے ہیں۔ اور عیسائی اپنے سال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سے گنتے ہیں ۔ اسی طرح ہندو قوم اپنے اہم واقعات کے وقت کو حضرت نوحؑ سے گنتی ہے۔ اس کے لیے وہ حضرت نوحؑ کے سیلاب سے ہر ساٹھ سال کے وقفہ کو ایک اکائی یا ایک سال مانتے ہیں اور ان سالوں سے اپنے اہم واقعات کو شمار کرتے ہیں۔ ڈیو بائس اپنی مذکورہ بالا کتاب میں لکھتا ہے :
’’ہندوئوں کا موجودہ یُگ کل یگ تقریباً اسی زمانے سے شروع ہوتا ہے جو سیلاب نوح کا زمانہ ہے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کو وہ یادگار سمجھتے ہیں اور ان کے مصنّفین اسے جل پرلیاون یا پانی کے سیلاب کا نام دیتے ہوئے اس کا وضاحت سے ذکر کرتے ہیں۔ اس موجودہ یُگ کی تاریخ یقیناً جبل پرلیاون کے آغاز سے شروع ہوتی ہے۔۔۔
۔۔۔اورحیرت انگیز بات ہے کہ ہندو اپنی زندگی کے تمام اہم اورمشہور واقعات و معمولات اور اپنی تمام عوامی یادگاروں کی تاریخ یا سن کو ایک سیلاب کے خاتمے سے شمار کرتے ہیں۔۔۔ سیلاب کے بعد ہر ساٹھ سال کا ایک سال مان کر ان سالوں سے اپنے تمام عوامی اور ذاتی واقعات کی مدت شمار کرتے ہیں‘‘۔ (ایضاً)
اس قوم کا حضرت نوحؒ (ان کی زبان میں منو) سے خصوصی تعلق ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ان کی مذہبی کتب میں ’’منو سمرتی‘‘ کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔
ہندو قوم کی مذہبی تاریخ اور مذہبی کتب کے حضرت نوحؑ سے خصوصی تعلق کی چند مثالیں یہاں پیش کی گئیں۔ قوم نوح سے متعلق بخاری شریف کی جو حدیث اس مضمون کے شروع میں گزری اس میں ہم نے دیکھا کہ حضرت نوحؑ کی امت ان کو اپنے نبی کی حیثیت سے نہیں پہچانتی ہوگی اور ہم جان چکے ہیں کہ حضرت نوحؑ سے زبر دست رشتہ موجود ہونے کے باوجود موجودہ ہندو قوم بحیثیت مجموعی ان کو نہیں جانتی ہے۔ اسی حدیث سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ قیامت کے دن امت محمدی حضرت نوحؑ کے اپنی قوم میں پیغام پہنچانے کی گواہ بنے گی اور ہمیں معلوم ہے کہ دیگر احادیث نے اس قوم کے امت محمدی بننے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ظاہر ہے ان تمام حقیقتوں کے آشکارا ہونے کے بعد اور امت محمدی میں شامل ہونے کے بعد وہی اس بات کی گواہی دیں گے۔
لیکن ان تمام ثبوتوں کے بعد بھی ابھی آخری اور مستند ترین گواہی باقی ہے۔ قرآن عظیم۔آئیے دیکھیں ۔
قرآن کی گواہی
دنیا کی تمام قوموں کو دو طرح کی نسلوں میں تقسیم کیاگیا ہے۔ سامی نسلیں (Semetic races) اور غیر سامی قومیں (Non-Semetic races)۔ غیر سامی قوموں میں آرین نسل آتی ہے اور سیمیٹک قوموں میں یہودی، عیسائی اور جزیرہ نمائے عرب کے بنی اسماعیل۔
ونیا کی دو نسلوںمیں تقسیم ہونے اور ان میں سے ایک نسل کا تعلق حضرت نوحؑ سے ہونے کی قرآن بھی تصدیق کرتا ہے۔
’’یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے منجملہ (دیگر) انبیاء کے نسل آدمؑ سے (تھے) اور بعض ان کی نسل سے تھے جنھیں ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا، اور بعض ابراہیمؑ و یعقوبؑ کی نسل میں سے ہیں۔ اور یہ سب ان لوگوں میں سے تھے جن کو ہم نے ہدایت دی اور ہم نے ان کو مقبول بنایا۔‘‘ (سورہ مریم: ۵۸)
قرآن مجید کی اس آیت سے معلوم ہوا کہ نسل آدم میں سے حضرت نوحؑ کے ساتھیوں کی نسل الگ ہے اور حضرت ابراہیم و یعقوب علیہما السلام کی نسل یعنی بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل الگ نسلیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ بنی اسماعیل و بنی اسرائیل سامی نسلیں Semetic races ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ حضرت نوحؑ کے ساتھیوں کی نسل غیر سامی (Non-Semetic) یا آرین نسل ہونی چاہیے۔ آرین نسل دنیا کے بہت سے ملکوں کے علاوہ ہندوستان کے بیشتر حصے میں آباد ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ ہم حضرت نوحؑ کے ساتھیوں کی نسل کو حضرت نوحؑ کی امت کیسے کہ رہے ہیں۔ کسی رسول کی امت کہلانے کے لیے ان کی نسل سے ہونا یا نہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ ہم مسلمان ہیں، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے کی امت ہیں، حالانکہ ہم میں سے اکثر ان کی نسل سے نہیں ہیں۔ ہم ان کی امت ہیں کیونکہ ہم ان کو اپنا رسول تسلیم کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت میں سے جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیغمبر خدا ہونے کا اقرار کیا، وہ پھر حضرت عیسیٰؑ کی امت کہلائے۔ حضرت نوحؑ کے ساتھ ان کے وہی ساتھی طوفان نوحؑ سے بچا لیے گئے تھے جو ان پر ایمان لائے تھے۔ وہ ان کے امتی تھے، ان ساتھیوں کی نسل یا آرین نسل میں سے موجودہ ہندو مذہبی قوم چونکہ حضرت نوحؑ کے بعد آنے والے دوسرے انبیاء کو اپنا نبی تسلیم نہیں کرتی ہے، اس لحاظ سے ہم نے اپنی تحریروں میں ان کو حضرت نوحؑ کی امت یا حضرت نوحؑ کی قوم کہا ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ حضرت نوحؑ کو بھی ان کی اصل حیثیت کے ساتھ یہ قوم نہیں پہچانتی ہے جس کا اظہار ہم ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنے نبی کو دیو مالاؤں میں گم کردیا ہے۔
٭٭٭