[]
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے دیوانی اور فوجداری مقدمات سے متعلق 2018 میں دیے گئے اپنے فیصلے کو پلٹ دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے نئے فیصلے میں کہا ہے کہ دیوانی اور فوجداری مقدمات میں ہائی کورٹ کی جانب سے عائد کردہ عبوری حکم امتناعی 6 ماہ میں خود بخود ختم نہیں ہوگا۔
جبکہ سپریم کورٹ نے 2018 میں اپنے ایک حکم نامہ میں کہا تھا کہ اگر ہائی کورٹ میں مزید سماعت نہیں ہوتی ہے تو 6 ماہ بعد کسی مقدمے میں عائد عبوری روک خود بخود ختم ہو جائے گی۔ جب تک کہ ہائی کورٹ کی طرف سے اس میں توسیع نہ کی جائے۔
ایک کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ آئینی عدالتوں کو مقدمات کے فیصلہ مقررہ وقت میں کرنے کے احکامات نہیں دینے چاہئیں کیونکہ نچلی سطح کے مسائل متعلقہ عدالتوں کو معلوم ہیں۔ ایسے احکامات صرف غیر معمولی حالات میں دیئے جائیں۔
آیا دیوانی اور فوجداری مقدمات میں ہائی کورٹ کی طرف سے دیے گئے عبوری حکم امتناعی کا اطلاق صرف چھ ماہ کے لیے ہونا چاہیے (جب تک کہ خاص طور پر توسیع نہ کی جائے) یا نہیں۔ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے اس معاملے پر اپنا فیصلہ سنایا ہے۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ میں جسٹس ابھے ایس اوک، جے بی پاردی والا، جسٹس پنکج متل، جسٹس منوج مشرا بھی شامل ہیں۔ سپریم کورٹ نے 13 دسمبر 2023 کو 2018 کے فیصلے کے خلاف اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
اس کے مطابق، دیوانی اور فوجداری مقدمات میں ہائی کورٹ اور دیگر عدالتوں کی طرف سے دیے گئے اسٹے کے عبوری احکامات چھ ماہ کی مدت کے بعد خود بخود ختم ہو جائیں گے بشرطیکہ ان احکامات میں خصوصی طور پر توسیع نہ کی جائے۔
درحقیقت، سپریم کورٹ نے 2018 میں فیصلہ دیا تھا کہ ہائی کورٹ اور دیگر عدالتوں کی طرف سے دیے گئے اسٹے کے عبوری احکامات چھ ماہ کی مدت کے بعد خود بخود ختم ہو جائیں گے، جب تک کہ عدالت کی طرف سے خاص طور پر توسیع نہ کی جائے۔