[]
ڈنمارک کے وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ قرآن کی بے حرمتی کے”اہم منفی نتائج‘‘ ہوسکتے ہیں۔ ڈنمارک اور سویڈن میں حالیہ ہفتوں میں قرآن سوزی کے واقعات نے متعدد مسلم ملکوں کو ناراض کر دیا ہے۔
ڈنمارک کی حکومت کوئی ”ایسا قانونی راستہ‘‘ تلاش کر رہی ہے جس سے حکام سفارت خانوں کے باہر مظاہرین کو مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کو جلانے سے روک سکیں۔ ڈنمارک کے وزیر خارجہ لارس لوکے راسموسن نے اتوار کے روز قومی نشریاتی ادارے ڈی آر کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت قرآن سوزی جیسے واقعات کو روکنے کے لیے مداخلت کی گنجائش کے امکانات تلاش کر رہی ہے۔
یہ خبر ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب کئی مسلم ممالک نے حالیہ ہفتوں میں ڈنمارک اور سویڈن میں ہونے والے مظاہروں کے دوران قرآن سوزی کے واقعات پر سخت احتجاج کیا ہے۔ سعودی عرب اور عراق کے مطالبے پر مسلم ملکوں کی تنظیم اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا آج پیر 31 جولائی کو ہنگامی اجلاس ہو رہا ہے۔ جس میں سویڈن اور ڈنمارک میں قرآن سوزی کے واقعات کے خلاف لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ متعدد ملکوں نے سویڈش مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم پہلے ہی شروع کر رکھی ہے۔
ڈنمارک کے وزیر خارجہ نے کیا کہا؟
ڈنمارک اور سویڈن دونوں نے اسلام کی مقدس ترین کتاب کو نذر آتش کرنے کے واقعات پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اس کے باوجود دونوں ملکوں کا کہنا ہے کہ آزادی اظہار کے تحفظ کے قوانین کے خلاف ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔
راسموسن نے اتوار کے روز ایک بیان میں کہا کہ حکومت مداخلت کے امکانات کا مطالعہ کر رہی ہے۔ ”بالخصوص ایسے حالات میں جہاں مثال کے طورپر دوسرے ممالک، ثقافتوں اور مذاہب کی توہین کی جارہی ہو اور جہاں یہ کارروائیاں ملکی سلامتی اور امن عامہ پر سنگین منفی اثرات مرتب کریں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ،”مذہبی کتابوں کو جلانا، انتہائی جارحانہ اور لاپرواہی کی حرکتیں ہیں، جن کا ارتکاب چند افراد نے کیا ہے۔ یہ چند افراد ان اقدار کی نمائندگی نہیں کرتے، جن پر ڈنمارک کا معاشرہ قائم ہے۔‘‘ راسموسن نے اس بات پر زور دیا کہ کوئی بھی اقدام ”آزادی اظہار کوآئینی طور پر حاصل تحفظ کے فریم ورک کے اندر اس انداز سے برقرار رکھا جائے گا، جو اس حقیقت کو تبدیل نہیں کرے گا کہ ڈنمارک میں اظہار رائے کی آزادی کا دائرہ بہت وسیع ہے۔‘‘
سویڈن نے کیا کہا؟
دریں اثنا سویڈن کے وزیر اعظم اولف کرسٹرسن نے اتوار کے روز کہا کہ انہوں نے ڈنمار کے ہم منصب میٹے فریڈرکسن سے بات چیت کی ہے اور دونوں رہنما اس بات سے متفق ہیں کہ صورت حال خطرناک ہے۔
کرسٹرسن نے انسٹاگرام پر ایک پوسٹ میں کہا، ”ہمیں اپنی لچک کو مضبوط کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ بالآخر یہ ہمارے آزاد اور کھلے معاشروں، ہماری جمہوریت اور ہمارے شہریوں کی آزادی اور سلامتی کے حق کے دفاع سے متعلق معاملہ ہے۔‘‘
قرآن کی بے حرمتی کے خلاف مسلم ملکوں میں غم وغصہ اور ناراضگی بالخصوص سویڈن کے لیے پریشان کن رہا ہے، جس کی نیٹو کی شمولیت کی کوشش کو ترکی نے دہشت گردوں کی اعانت کا الزام لگا کر تقریباً ایک سال سے روک رکھا تھا۔ ترکی قرآن سوزی کے خلاف سب سے زیادہ احتجاج کرنے والے ملکوں میں شامل رہا ہے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے وزارت خارجہ کے ایک ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ اتوار کے روز ترک وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے اسٹاک ہولم پر زور دیا کہ وہ قرآن سوزی کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ فیدان نے سویڈن کے ہم منصب ٹوبیاس بلسٹروم سے فون پر بات کی، جس میں سویڈن کی نیٹو میں شمولیت پر بھی گفتگو ہوئی۔ اس ماہ کے اوائل میں سویڈش حکومت نے کہا تھا کہ وہ پبلک آرڈر ایکٹ میں اس طرح ترمیم کے امکانات پر غور کرے گی جس سے پولیس کے لیے ملک کی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث بننے والے مظاہروں کو روکنا ممکن ہو سکے۔