انصار اللہ نے صیہونی رجیم کا تجارتی توازن بگاڑ دیا

[]

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: ویداد زادہ بغلانی: ایران میڈیا ایگزبیشن میں مسئلہ فلسطین کو خاص اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے ایک سیکشن فلسطین اور مزاحمتی محور کے لیے مختص کیا گیا تھا جہاں افغانستان، پاکستان، ترکی، تیونس، عراق، یمن، لبنان اور فلسطین سے مزاحمتی محاذ کے 12 میڈیا چینلز اور 15 میڈیا نمائندوں نے شرکت کی۔ 

  اس سلسلے میں مہر نیوز کی نامہ نگار نے المنار ٹی وی چینل کے ڈپٹی ڈائریکٹر جناب حسن حاج سلیمان کا ایک انٹرویو کیا جس کی تفصیلات قابل توجہ ہیں:

مہر نیوز: ایرانی میڈیا اور موجودہ نمائش مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اسرائیل اور مغرب کے جارحانہ موقف کو کیسے آشکار کر سکتی ہے؟ 

درحقیقت یہ نمائش میڈیا سے وابسہ لوگوں کے لیے ملاقات اور مزاحمتی محور کے ممالک، عرب ممالک حتیٰ کہ اسلامی ممالک کی جانب سے میڈیا کے خیالات پیش کرنے کا بہترین موقع اور فرصت ہے۔ 

اس نمائش میں، غیر ملکی سیاسی تجزیہ کار بھی موجود ہیں جو اپنے تجزیے مغربی اور لاطینی امریکی اخبارات میں شائع کرتے ہیں۔ درحقیقت اس نمائش کا انعقاد صیہونی حکومت کی اصلیت اور فلسطینی عوام پر ظلم و ستم کو آشکار کرنے کا ایک بنیادی موقع ہے۔

 دوسری طرف، میڈیا کے لوگوں کے اکٹھے ہونے کے نتیجے میں معلومات کا تبادلہ ہوا ہے اور ان کا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون ایک مشترکہ میڈیم اور طریقہ کار کے حصول کا باعث بنا ہے جو فلسطینی نظریات کے دفاع میں بہت موثر ہیں۔

مہر نیوز: امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے صیہونی حکومت کی حمایت کو بے نقاب کرنے کے لیے میڈیا کو کن پہلوؤں پر توجہ دینی چاہیے؟

اس تناظر میں ایک اہم ترین چیز جس پر توجہ دی جانی چاہیے وہ صیہونیوں کے بیانات کا تجزیہ، ان کا حقائق سے موازنہ اور اسرائیلی میڈیا کے جھوٹ کو بے نقاب کرنے پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ 

ہمیں اسرائیلی حکام کے داخلی اختلافات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے صہیونی اخبارات اور سوشل میڈیا پر ان کے جھوٹ کو بے نقاب کرنا چاہیے۔

مہر نیوز: بحیرہ احمر، باب المندب اور خلیج عدن میں یمن کی انصاراللہ کے اقدامات کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟

یمنی مزاحمت جو کچھ کر رہی ہے اس کا مختلف ابعاد میں بہت اثر ہوا ہے، پہلی جہت یہ ہے کہ مزاحمت نے اسرائیلی معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور اس لیے ان کے اقدامات نے بالواسطہ طور پر صیہونی رجیم اور اس کے حامیوں کی تجارتی طاقت کے توازن میں بگاڑ پیدا کر دیا ہے۔

 دوسری جہت صیہونی حکومت، امریکہ اور برطانیہ پر مزاحمتی محور خاص طور سے یمن کی انصار اللہ تحریک کا خوف ہے، کیونکہ یمنیوں کے پاس اب بھی بہت سی صلاحیتیں ہیں جنہیں وہ مستقبل قریب میں ظاہر کر سکتے ہیں۔

مہر نیوز: کیا صیہونی حکومت لبنان کے خلاف اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ پہنانے اور لبنان کے خلاف بڑے پیمانے پر جنگ شروع کرنے کی جرات کرے گی یا اس کی دھمکیاں محض غزہ کی حمایت میں حزب اللہ کی کارروائیوں کو روکنے کے نفسیاتی حربے ہیں؟

اسرائیل ہمیشہ لبنان کے ساتھ جنگ ​​کی تلاش میں رہتا ہے لیکن وہ اس سے خوفزدہ ہے۔ مزاحمت نہ تو جنگ کی تلاش میں ہے اور نہ ہی اس سے ڈرتی ہے بلکہ جنگ کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے اور صیہونیوں کو سپرائز دے سکتی ہے۔

 اسرائیل کو لبنان کو دھمکیاں دینی پڑتی ہیں اور اگر اس نے دھمکی نہ دی تو وہ اپنی ساکھ کھو سکتا ہے۔ درحقیقت یہ سب انتخابات کے لئے کی جانی والی لفاظی اور گیدڑ بھبکیاں ہیں جو معروضی دنیا میں کوئی وجود نہیں رکھتیں۔

مہر نیوز: آپ کے خیال میں عرب ممالک بالخصوص فلسطین کے ہمسایہ ممالک نے غزہ کی حمایت میں کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا؟

عرب ممالک کو بیدار ہونا چاہیے اور انہیں غزہ کے عوام کی حمایت کے لیے اصولی موقف اختیار کرنا چاہیے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ ایران کی روح اللہ خمینی (رح) نامی شخصیت شاہ کی حکومت کا تختہ الٹ سکتی ہے۔ پس ہم فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کی حمایت میں مضبوط اور فیصلہ کن قدم اٹھا سکتے (غاصب رجیم کا خاتمہ کر سکتے) ہیں۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *