[]
سوال:آج کل نوجوان لڑکے اور لڑکیوں میں یہ بات عام ہو گئی ہے کہ سوشل میڈیا پر موصول ہونے والی ہردینی اور معلوماتی چیز محرم وغیر محرم مرد وخواتین کو بھیجتے رہتے ہیں،
اور اس میں وہ اپنے آپ کے لیے خوشی محسوس کرتے ہیں، تو کیا کسی بھی نوجوان لڑکا یا لڑکی کے لیے اس طریقے سے میسج بھیجنا درست ہے، جبکہ سامنے والے مرد و خواتین ان کے لیے اجنبی اور غیر محرم ہوں۔ (برہان الدین قاسمی ، عطا پور)
جواب:- شریعت نے غیر محرم سے ملنے، ان سے بات کرنے کے سلسلے میں بڑی تاکید کی ہے، اور جہاں فتنے کا ذرا بھی شائبہ ہو وہاں اختلاط سے اور بات چیت سے پرہیز کرنے کا حکم دیا ہے؛
لہذا کوئی بھی دینی، معلوماتی اورمفید بات بھی کسی غیر محرم کو میسج کرنا اور بھیجنا درست نہیں ہے کہ اس سے بعض دفعہ فتنے پیدا ہوتے ہیں اور موجودہ حالات میں تو اس سے احتراز کچھ زیادہ ہی ضروری ہے؛
البتہ اگر فتنہ کا اندیشہ نہ ہو، کوئی غیر اخلاقی بات نہ ہو اور کوئی خاص شخص اس کا مخاطب بھی نہ ہو؛ بلکہ عمومی نصح وموعظت کی بات ہو تو دینی معلومات دینے کی غرض سے بھیجنے کی گنجائش ہے:
وإذا سلمت المرأة الأجنبية على رجل إن كانت عجوزا رد الرجل – عليها السلام – بلسانه بصوت تسمع، وإن كانت شابة رد عليها في نفسه، وكذا الرجل إذا سلم على امرأة أجنبية فالجواب فيه على العكس اهـ. … في القنية رامزا ويجوز الكلام المباح مع امرأة أجنبية(رد المحتار، كتاب الحظر والاباحة، فصل في النظر والمس :6/369)