[]
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے دفتر برائے حفظ و نشر آثار رہبری کے رکن مہدی فضائلی نے خامنہ ای ڈاٹ آئی آر کی طوفان الاقصی آپریشن کے دوران میڈیا سرگرمیوں اور اس سائٹ کے انسٹاگرام اکاؤنٹ کو بلاک کرنے کی وجوہات کے بیان کے لئے منعقدہ خصوصی اجلاس کے آغاز میں رہبر معظم انقلاب کے پیغامات کی اشاعت کے حوالے سے مذکورہ سائٹ کی میڈیا پالیسیوں کی وضاحت کی۔
انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ رہبر معظم انقلاب کی سائٹ “KHAMENEI.IR” کا نقطہ نظر شروع سے ہی رہبر معظم کے پیغامات کی نشر و اشاعت رہا ہے کہا کہ یہ نقطہ نظر شروع سے ہی پیش نظر رہا ہے کہ تمام میڈیا پلیٹ فارمز کی سہولیات کو بروئے کار لاتے ہوئے رہبر انقلاب کے پیغامات اور خیالات کو دنیا بھر کے مخاطبین تک مختلف زبانوں میں پہنچایا جائے۔
البتہ پالیسی یہ رہی ہے کہ زبان، سوشل پلیٹ فارم اور میڈیا کے لحاظ سے جن زبانوں کے مخاطبین اور صارفین زیادہ ہوں انہیں ترجیح دی جائے۔
اسی وجہ سے رہبر انقلاب کا دفتر حفظ و نشر آثار میڈیا ٹولز کے استعمال کے اہم اور اپڈیٹڈ مجموعوں میں سے ایک ہے۔
انہوں نے آیت اللہ خامنہ ای کے دفتر برائے حفظ و نشر آثار کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی سرگرمیوں کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ بیان کردہ وجوہات کی بنا پر موجودہ میڈیا پلیٹ فارمز کو ایک فرصت اور مناسب موقع سمجھا جاتا ہے اور اس سائٹ کے اکاؤنٹس مختلف ملکی اور غیر ملکی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بشمول ایکس (سابقہ ٹویٹر) اور انسٹاگرام میں بھی فعال رہے ہیں اور بعد میں مزید سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بھی شامل کیا گیا۔
فضائلی نے رہبر معظم انقلاب کی سائٹ کے سوشل میڈیا اکاونٹس کے حوالے سے بعض پلیٹ فارمز کی پالیسیوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں سائٹ کا پانچ میلین ایک لاکھ صارفین پر مشتمل انسٹاگرام اکاؤنٹ بغیر کسی پیشگی نوٹس اور انتباہ کے بلاک کر دیا گیا البتہ ماضی میں بھی اس سائٹ کے کچھ اکاؤنٹس کو کئی بار بلاک کیا گیا تھا، تاہم وہ معاملات کی پیروی کے بعد کھول دئے گئے تھے۔
انہوں نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ حالیہ معاملے میں کوئی انتباہ نہیں دیا گیا تھا، کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اکاونٹ دوبارہ کھولنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے۔ البتہ بلاکیج کو دور کرنے کے لیے پیروی کی کوشش کی گئی لیکن ابھی تک ان فالو اپس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا، اس لیے اس مسئلے کے بارے میں مزید تفصیلی جائزہ لینے کا فیصلہ کیا گیا۔
فضائلی نے اس بات پر زور دیا کہ یہ واقعات رہبر معظم انقلاب کی میڈیا سرگرمیوں کو نہیں روک سکیں گے بلکہ اس سے ان کے پیغام کی میڈیا کوریج میں حوصلہ افزا اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جب یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی نام نہاد پالیسیوں اور اہداف کے خلاف کوئی موئثر پیغام شائع ہو رہا ہے تو وہ اس کی اشاعت کو روکنے کے لیے اظہار رائے کی آزادی کے اپنے تمام قوانین کو پامال کرتے ہیں۔ اس رویے کو ڈیجیٹل آمریت کی ایک قسم قرار دیا جا سکتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب کے دفتر برائے حفظ و نشر آثار کے رکن نے انسٹاگرام پر KHAMENEI.IR کا اکاونٹ دوبارہ فعال کرنے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ رہبر معظم انقلاب کا دفتر برائے حفظ و نشر آثار معظم لہ کے پیغامات کی اشاعت اور ترویج کے لیے کسی بھی میڈیا سہولت کو استعمال کرے گا۔ اس پلیٹ فارم کے اکاونٹ کو دوبارہ فعال کرنے کے حوالے سے بھی تحقیقات کی جائیں گی، اور اگر ایسا کرنا ممکن ہوا تو مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں دوبارہ فعال کرنے پر کوئی پابندی کا سامنا ہوگا۔
انہوں نے میٹا کمپنی سے معاملے کی پیروی اور باضابطہ احتجاج کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ رہبر معظم کی سائٹ کو اپنے حقوق کے حصول اور افکار کی اشاعت کے لیے کوئی بھی ذریعہ استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔
فضائلی نے انسٹاگرام کی اس کارروائی کو رہبر انقلاب کی میڈیا سرگرمیوں کے خلاف ایک غیر فعال اور شکست خوردہ اقدام قرار دیا اور ساتھ ہی ملک کے اندر اور باہر اظہار رائے کی آزادی کے دعویداروں کے دوہرے اور متضاد معیارات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ ملک کے اندر یا بیرون ملک کسی میڈیا پلیٹ فارم یا میڈیا پرسن کے ساتھ صحیح یا غلط سلوک پر شدید رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے اور باقاعدہ موقف اختیار کیا گیا حتی بعض اوقات ممالک اور حکومتیں بھی ان لوگوں اور میڈیا کی حمایت کرتی نظر آئی ہیں۔ لیکن اس دوہرے معیار کا موازنہ موجودہ صورتحال سے کریں کہ جہاں 50 لاکھ سے زیادہ فالورز کا حامل پیج بلاک کر دیا گیا ہے اور ہمیں (ان نام نہاد اداروں کی جانب سے) کوئی ردعمل نظر نہیں آرہا ہے۔
واضح رہے کہ طوفان الاقصی آپریشن کے دوران ریبر معظم انقلاب کی سائٹ KHAMENEI.IR کی میڈیا فعالیتوں اور اس کے انسٹاگرام اکاؤنٹ کو بلاک کرنے کی تحقیقات کے حوالے ایک خصوصی اجلاس آج ایران میڈیا ایکسپو کے KHAMENEI.IR بوتھ میں میڈیا کے ماہرین کی موجودگی میں منعقد ہوا۔