[]
دی ہیگ: فلسطینی وزیر خارجہ نے پیر کے دن اسرائیل پر نسل پرستی کا الزام عائد کیا اور اقوام متحدہ کی اعلیٰ عدالت سے خواہش کی کہ ریاست ِ فلسطین کے لئے درکار اراضی پر اسرائیل کے قبضہ کو غیرقانونی قراردیا جائے۔
اس قبضہ کو فوری اور غیرمشروط طورپر برخاست کرایا جائے تاکہ 2 ریاستی مستقبل کی امید باقی رہے۔ انہوں نے یہ ریمارکس ریاست ِ فلسطین کے لئے درکار اراضی پر اسرائیل کے 57 سالہ قبضہ کے قانونی جواز پر تاریخی سماعت کی شروعات پر کئے۔ یہ مقدمہ اسرائیل۔ حماس جنگ کے پس منظر میں چل رہا ہے۔
فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی نے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی جے) سے کہا کہ غزہ میں 23 لاکھ فلسطینی جن میں نصف بچے ہیں‘ محصور ہیں۔ ان پر بمباری ہورہی ہے۔ وہ مارے جارہے ہیں‘ معزور ہورہے ہیں‘ بھوکوں مررہے ہیں اور بے گھر ہوچکے ہیں۔
مغربی کنارہ بشمول یروشلم میں 35 لاکھ فلسطینیوں کا علاقہ کسی اور کی کالونی بن چکا ہے۔ نسل پرستانہ تشدد جاری ہے۔ بین الاقوامی قانون کے ماہر پال رشلر نے فلسطینیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے بین الاقوامی عدالت ِ انصاف سے کہا کہ اسرائیلی حکومت کی پالیسیاں ایسی ہیں جن کی سابق میں نظیر نہیں ملتی۔
مزید علاقوں کو اسرائیل میں شامل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ عدالت کا اجلاس توقع ہے کہ 6 دن جاری رہے گا۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی نے مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی پالیسیوں کے تعلق سے مشاورتی رائے مانگی ہے جو کسی کو پابند نہیں کرے گی۔ امکان ہے کہ ججس رائے دینے کے لئے کئی ماہ لیں گے۔
امریکی چارٹر میں حق ِ خودارادیت کا حوالہ دیتے ہوئے المالکی نے کہا کہ کئی دہوں سے فلسطینی عوام اس حق سے محروم ہیں۔ وہ استعماریت اور نسل پرستی دونوں کا شکار ہیں۔ فلسطینیوں کی دلیل ہے کہ اسرائیل نے مقبوضہ اراضی کا بڑا حصہ ضم کرتے ہوئے فلسطینیوں کے حق ِ خودارادیت کو سلب کرلیا ہے۔
اس نے نسلی بھیدبھاؤ اور نسل پرستی کا سسٹم مسلط کردیا ہے۔ فلسطینی وزیر خارجہ نے عدالت سے اپیل کی کہ فلسطینیوں کے حق خودارادیت کو جائز ٹھہرایا جائے اور اسرائیلی تسلط کو غیرقانونی ٹھہراتے ہوئے اس کا خاتمہ کیا جائے۔ فلسطینی وفد نے یہ بھی کہا کہ اقوام متحدہ کی عدالت اگر پہل کرے تو امن کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ اسرائیلی اور فلسطینی ساتھ ساتھ جی سکتے ہیں۔
بہترین اور ممکنہ آخری امید 2 ریاستی حل ہے جو فلسطینیوں اور اسرائیلیوں دونوں کی ضروریات کے لئے اہم ہے۔ فلسطینی وزیر خارجہ کے خطاب کے بعد 51 ممالک اور 3 بین الاقوامی تنظیمیں اپنی بات رکھیں گی۔ اسرائیل دوران ِ سماعت کچھ بھی نہیں کہے گا لیکن وہ تحریری جواب داخل کرسکتا ہے۔
اسرائیل نے 1967 کی مشرق ِ وسطیٰ کی جنگ میں مغربی کنارہ‘ مشرقی یروشلم اور غزہ پٹی پر قبضہ کرلیا تھا۔ فلسطینی‘ آزاد ریاست کے لئے یہ تینوں علاقے چاہتے ہیں۔ اسرائیل‘مقبوضہ کنارہ کو متنازعہ علاقہ مانتا ہے جس کا مستقبل بات چیت کے لئے طئے ہونا چاہئے۔ اس نے مغربی کنارہ میں 146 بستیاں بسادیں۔
واچ ڈاگ گروپ پیس ناؤ کے بموجب ان میں کئی بستیاں پوری طرح ترقی یافتہ مضافات اور چھوٹے ٹاؤنس جیسی لگتی ہیں۔ ان سیٹلمنٹس میں 5 لاکھ یہودی سیٹلرس اورعلاقہ میں تقریباً 30 لاکھ فلسطینی رہتے ہیں۔ اسرائیل نے مشرقی یروشلم کو ضم کرلیا اور وہ اس پورے شہر کو اپنا دارالحکومت سمجھتا ہے۔
مشرقی یروشلم میں بنائے گئے سیٹلمنٹس میں 2 لاکھ یہودی رہتے ہیں۔ شہر کے فلسطینیوں سے منظم تعصب برتا جاتا ہے۔ ان کے لئے نیا مکان تعمیر کرنا یا موجودہ مکان میں توسیع دشوار ہے۔ اسرائیل نے 2005 میں غزہ سے اپنے سارے فوجی اور سیٹلرس ہٹالئے لیکن اس نے علاقہ کی فضائی اور بحری لائن پر کنٹرول برقرار رکھا۔