[]
مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: غزہ پر جاری جنگ میں نہتے لوگوں کے بہیمانہ قتل کے علاوہ صیہونی حکومت نے صحافیوں کے قتل عام کو بھی اپنے ایجنڈے میں شامل کر رکھا ہے جس کا مقصد ان کی آواز کو دبانا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہ قاتل رجیم کافی عرصے سے بے بنیاد دعووں کے ذریعے حماس پر جارحیت کا الزام لگا کر فلسطینیوں کی نسل کشی کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
حال ہی میں صیہونی حکومت کی فوج کے ترجمان Avichay Adraee نے دعویٰ کیا ہے کہ الجزیرہ ٹی وی چینل کا صحافی محمد وشاح غزہ کی پٹی میں تحریک حماس کے کمانڈر کے طور پر کام کر رہا ہے۔
تاہم ادرائی نے اپنے الزامات کے تائید میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا
رجیم نے سوشل میڈیا میں ان کی صرف چند تصاویر شائع کی ہیں جن میں انہیں رائفلوں سے تربیت لیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ صرف اس بنیاد پر وشاہ کو حماس کا کمانڈر کہنا دعوی بلا دلیل ہے جو کہ صیہونی فوجی حکام کے صحافیوں اور مزاحمتی محور کو بدنام کے منصوبے کا حصہ ہے۔
اس سے پہلے صہیونی فوج نے فضائی حملے میں شہید ہونے والے الجزیرہ کے دو دیگر صحافیوں حمزہ دحدود اور مصطفیٰ کے بارے میں یہ دعوی کیا کہ وہ حماس اور اسلامی جہاد موومنٹ کے رکن ہیں۔
درحقیقت غزہ کی پٹی میں صیہونی حکومت کو جس چیز نے خوفزدہ کیا ہے وہ صحافیوں کی مزاحمتی محاذ سے وابستگی نہیں بلکہ دنیا میں صیہونیوں کے جرائم اور نسل کشی کو برملا کرنے میں ان کی متاثر کن اور طاقتور آواز ہے جس نے دنیا بھر فاشسٹ رجیم کو رسوا کیا ہے۔
اس قاتل رجیم کے حکام کو دعوے کرنے کے بجائے اس سوال کا جواب دینا چاہیے: “کیا غزہ کے خلاف حکومت کی جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک جو 126 صحافی شہید ہوئے، وہ سب حماس کے کمانڈر اور مزاحمتی محور کے رکن تھے؟”
جس آخری صحافی کو نشانہ بنایا گیا وہ فلسطینی علاء حسن الحمس ہیں، جن کے گھر کو قابض فوج نے وحشیانہ طریقے سے نشانہ بنایا۔ ان حملوں میں ان کے خاندان کے تمام افراد شہید ہوئے اور علاء واحد زندہ بچ گئے جو اس حملے میں شدید زخمی ہوئے تاہم وہ پیر کے روز زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے خاندان سے ملحق ہوئے۔
غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی جارحیت سے پہلے کی صورت حال پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحافیوں کے ساتھ صیہونی رجیم کا رویہ معاندانہ رہا ہے۔ یہ رجیم مقبوضہ علاقوں اور فلسطین کے حقائق دنیا کے سامنے لانے والے کو صحافیوں کو قتل کرتی آئی ہے۔
صحافیوں کے قتل کا مقصد نسل کشی کی خبروں کو دفن کرنا ہے
ہم گذشتہ مہینوں میں میڈیا اور صحافیوں کے خلاف صیہونی حکومت کی شدید دشمنی اور غزہ کے واقعات کو دنیا کے لوگوں تک پہنچانے کی مخالفت کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ 126 صحافیوں کی شہادت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صحافیوں کا قتل اس فاشسٹ رجیم کے لیے ایک روایت بن چکی ہے جو کسی بھی مذمت کی پرواہ کیے بغیر اس پر قائم ہے۔
مثال کے طور پر، الجالہ پر قابض حکومت کی بمباری کی 15 مئی 2021 کو یوم نکبہ کے موقع پر اسرائیل کے حملے کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو “خاموش” کرنے کی کوشش کے طور پر بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی۔
الجزیرہ، ایسوسی ایٹڈ پریس اور اے ایف پی سمیت بین الاقوامی میڈیا کے دفاتر الجالہ ٹاور میں واقع تھے جو غزہ کے بارے میں خبروں کی کوریج کرتے تھے۔ نیوز میڈیا کے دفاتر کے علاوہ، یہ عمارت ڈاکٹروں اور وکیلوں کے دفاتر اور رہائشی یونٹوں کی ایک بڑی تعداد کا گھر بھی تھی۔
لہٰذا، غزہ میں صیہونی حکومت کا یہ غیر انسانی اقدام بہت سے مبصرین کے مطابق، ایک ایسی کارروائی تھی جس کا مقصد حقائق کے انکشاف سے خوف زدہ ہو کر میڈیا کی آواز کو خاموش کرنا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو غزہ پر جارحیت کے بعد سے نہتے شہریوں اور صحافیوں کا یہ وحشیانہ قتل عام جاری ہے۔
مزید یہ کہ 22 مئی 2022 کو مغربی کنارے میں اسرائیلی اسنائپرز کے ہاتھوں الجزیرہ کی نمائندہ شیرین ابو عاقلہ کے قتل نے دنیا پر واضح کر دیا کہ مقبوضہ فلسطین میں کوئی بھی صحافی محفوظ نہیں۔
یاد رہے کہ صیہونیوں نے دوسری فلسطینی خاتون صحافی غفران ہارون ورثنیہ کو اسی سال قتل کیا اور احمد ابو حسین کو 2018 میں غزہ کی پٹی کے جبالیہ کیمپ میں پیٹ میں گولی مار کر شہید کیا۔
وارثینہ کو العروب پناہ گزین کیمپ کے قریب ایک اسرائیلی چوکی پر اس وقت شہید کر دیا گیا جب وہ ہیبرون شہر کے ایک ریڈیو سٹیشن پر اپنی ملازمت پر جا رہی تھی۔
صہیونیوں کی نفرت کا نشانہ صرف فلسطینی صحافی ہی نہیں ہیں بلکہ 2014 میں غزہ کی پٹی پر بمباری میں اطالوی صحافی “سیمون کیملی” بھی بنے حتیٰ کہ صحافیوں کے تحفظ کی تنظیم کی حالیہ رپورٹ نے بھی یہ ثابت کر دیا کہ صیہونی حکومت نے کچھ آزاد یہودی صحافیوں کو بھی قتل کیا۔ انہیں ان کے پیشہ ورانہ کام سے محروم رکھا گیا ہے اور یہاں تک کہ ایک اسرائیلی صحافی بھی لاپتہ ہو گیا ہے۔
فلسطینی وزارت اطلاعات کے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق سنہ 2000 میں دوسری فلسطینی انتفاضہ سے لے کر گزشتہ سال مئی تک 45 صحافی صیہونی حکومت کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں۔
صہیونی فوج غزہ میں قتل کئے گئے صحافیوں کو مزاحمتی گروہوں کے رکن اور لیڈروں کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے
صیہونی رجیم کی صحافیوں کو بدنام کرنے کی وجوہات
صیہونی رجیم کے الزام کے سلسلے میں صحافی اکیلے نہیں ہیں بلکہ کسی بھی شخص یا کسی بھی ادارے پر جو اسرائیلی نسل کشی کو روکنے کا ارادہ رکھتا ہے یہ الزام فوری طور عائد کیا جا رہا ہے جیسا کہ اس حکومت کی طرف سے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی کے خلاف کیے گئے دعوؤں میں دیکھا جا سکتا ہے۔
جیساکہ صیہونی حکومت نے دعویٰ کیا کہ حماس کی طرف سے شروع کیے گئے طوفان الاقصی آپریشن میں UNRWA کے تقریباً 190 عملے نے حصہ لیا۔
اس قاتل حکومت کے من گھڑت الزامات کے بعد امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور کینیڈا سمیت 10 سے زائد مغربی ممالک نے اس ایجنسی کی امداد بند کرنے کا اعلان کیا جس سے غزہ میں انسانی بحران میں اضافہ ہونے لگا ہے۔
صحافیوں اور UNRWA پر ایسے الزامات لگا کر قابض حکومت 28 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی شہادت سے دنیا کی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے، جن میں سے دو تہائی خواتین اور بچے ہیں۔
خونخوار صیہونی حکومت غزہ کی پٹی کے جنوب میں 1.4 ملین کی آبادی والے علاقے رفح میں پناہ لینے والے نہتے عوام کے خلاف وسیع زمینی حملے کا جواز تراشنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ایسے میں نیتن یاہو غزہ کے جنوبی شہر پر حملے کی بات کر رہے ہیں جس کی نہ صرف عالمی برادری اور عرب ممالک بلکہ امریکہ اور برطانیہ نے بھی کھل کر مخالفت کی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صحافیوں کو حماس اور مزاحمت سے جوڑنے کا نیتن یاہو کا مقصد فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے زبردستی بے دخل کرنا ہے۔
وہ 2 ہفتوں کی اس ڈیڈ لائن میں اسرائیلی رجیم کے حامیوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ رفح پر بڑے پیمانے پر حملہ کرنا ضروری ہے۔