[]
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لبنان کی حکومت کے وزیر خارجہ عبداللہ بوحبیب نے المیادین نیٹ ورک کے ساتھ گفتگو میں حزب اللہ کے خیموں کے حوالے سے پیغامات کے تبادلے پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ لبنان میں پانچ بڑے ممالک کے سفیر شبعا کے میدانوں میں نصب حزب اللہ کے خیمے کے بارے میں بات چیت کے لئے ہمارے پاس آئے۔ ہمارا جواب یہ تھا کہ ہمیں اس علاقے پر قابضین کے قبضے کے بارے میں بات کرنی چاہیے نہ کہ وہاں نصب خیموں کے بارے میں۔
واضح رہے کہ حالیہ ہفتوں میں لبنان کے سرحدی علاقوں میں صیہونی حکومت کی فوجی سرگرمیوں کے خلاف لبنان کے عوام اور فوج کے ردعمل کے ساتھ حزب اللہ نے جوابا الغجر کے علاقے کے گرد دو خیمے نصب کئے ہیں جس سے غاصب صیہونی حکومت اور فوجی حکام میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔
حزب اللہ کے حکام نے بارہا کہا ہے کہ اسرائیلی فوج مزاحمتی قوتوں کے خیموں ہٹانے سے بھی خوفزدہ ہے اور یہ خود تل ابیب کی شکست کی علامت ہے۔
بوحبیب نے مزید کہا کہ ہم نے سلامتی کونسل سے پہلے بھی کہا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ غاصب صیہونی حکومت کی جارحیت اور قرارداد 1701 کے تحت زمینی، فضائی اور سمندری خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے اقدام کرے۔
انہوں نے مزيد کہا کہ لبنان کی حکومت اس ملک کے جنوب میں اقوام متحدہ کی امن فوج (یونیفل) کی سرگرمیوں کو روکنا نہیں چاہتی لیکن ان فورسز اور لبنانی فوج کی سرگرمیوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے لبنان کے جنوبی باشندوں کے ساتھ ممکنہ کشیدگی کو مدنظر رکھا جائے۔
بوحبیب نے مزید کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ UNIFIL فورسز لبنان اور مقبوضہ فلسطین کے درمیان سرحدوں کے جائزے کے حوالے سے سہ فریقی اجلاس بلائے کیونکہ 23ویں لائن، جنگ بندی لائن اور بلیو لائن سے متعلق مسائل ہنوز متنازعہ ہیں۔
لبنان کے وزیر خارجہ نے ملک میں شامی پناہ گزینوں کی موجودگی کے بارے میں کہا کہ یورپی یونین کے رکن ممالک اور مغربی ممالک نہیں چاہتے کہ شامی پناہ گزین اپنے ملک واپس جائیں۔ وہ شامی مہاجرین کو لبنان، اردن اور ترکی جیسے میزبان ممالک میں رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ شامی حکومت نے پناہ گزینوں کی اپنی سرزمین پر واپسی کا خیر مقدم کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شامی پناہ گزینوں کے مسئلے پر بات چیت کے لیے 5 ممالک کے نمائندوں پر مشتمل ایک اجلاس آئندہ ماہ کے وسط میں قاہرہ میں منعقد ہونے والا ہے۔ اس معاملے پر مغربی ممالک کے موقف کا مقصد شام میں حکمراں حکومت کو نشانہ بنانا ہے۔ یہ ممالک یہ قبول نہیں کرنا چاہتے کہ جنگ ختم ہو چکی ہے۔ وہ اب بھی شام میں حکمران حکومت کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
لبنان کے وزیر خارجہ نے تاکید کی کہ شامی تارکین وطن غیر قانونی ذرائع سے قبرص کے ساحلوں تک پہنچے ہیں۔ اس ملک کے حکام انہیں یورپی ممالک نہیں بھیج سکتے کیونکہ یورپی یونین اس معاملے کے خلاف ہے۔ یورپیوں کا کہنا ہے کہ شام مہاجرین کی واپسی کے لیے غیر محفوظ ہے لیکن ہم اس بات کو قبول نہیں کرتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں نے شام کے وزیر خارجہ فیصل المقداد سے فون پر بات کی اور اس بات پر زور دیا کہ بیروت کسی بھی وقت ان کے لبنان کے دورے کا خیرمقدم کرتا ہے۔
شام کے ناظم الامور سے ملاقات کے دوران میں نے یہ بھی اعلان کیا کہ ہم علاقائی اور بین الاقوامی مسائل کے ساتھ ساتھ مشترکہ تعلقات کا جائزہ لینے کے لیے ایک وفد شام بھیجنے کے لیے تیار ہیں۔
لبنان کے وزیر خارجہ نے ملک کے صدر کے انتخاب کے حوالے سے کہا کہ ملک کے سیاسی قائدین کو غیر ملکی مداخلت کے بغیر صدر کے انتخاب پر متفق ہونا چاہیے۔ میں اس کیس کے حوالے سے کچھ غیر ملکی قونصل خانوں کے دباؤ کو سمجھتا ہوں۔
انہوں نے قرآن مجید کی بے حرمتی کے بارے میں واضح کیا کہ ہم سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے حوالے سے عرب ممالک کے متفقہ موقف کے منتظر ہیں۔