[]
-1 ہٹلر نے جرمنی پر حکومت کی اور جرمنی کو برباد کردیا۔
-2 اڈولف ہٹلر نے کبھی شادی نہیں کی اور وہ فیملی لائف کو پسند نہیں کرتا تھا۔
-3 اڈولف ہٹلر کا یقین بلکہ ایمان تھا کہ ایک خاص مذہب یا نسل کے لوگ جرمن قوم کے دشمن تھے۔
-4 ہٹلر کے ہمنوا اور ساتھی اس بات کو برداشت نہیں کرسکتے تھے کہ کوئی بھی فرد اس پر کسی بھی قسم کی تنقید کرے اور اس کے برابر دنیا میںکسی کو بھی نہ سمجھے۔
-5 تمام اخبارات ‘ نیوز ایجنسیاں‘ میگزین پر یہ فرض عائد کردیا گیا تھا کہ وہ ہٹلر کو ایک عظیم شخصیت ثابت کریں اور یہ بتائیں کہ جرمنی تو کیا دنیا میں اس کے برابر کوئی بھی نہیں۔
٭ اڈولف ہٹلر نے اپنے تمام مخالفین ‘ ناقدین کو آہنی پنجہ سے کچل کر رکھ دیا اور میڈیاکو مکمل اپنے کنٹرول میں لے لیا۔
-7 اڈولف ہٹلر اپنی انتخابی تقاریر میں کہا کرتا تھا کہ وہ جرمنی کے تمام مسائل اور مشکلات کو حل کردے گا۔
-8 ہٹلر کے اقتدار میں آنے کے بعد اور اختتام سے پہلے جرمنی کا کوئی بھی مسئلہ حل نہ ہوسکا بلکہ الٹا جرمنی برباد ہوگیا۔
-9 انتخابی ریالیوں میں اور تقاریر میں وہ کہا کرتا تھا کہ اچھے دن آئیں گے۔ (GUTE TAGI KOMMEN)
-10 اڈولف ہٹلر ہمیشہ بہترین پوشاک پہنتا تھا اور اسے خود کو سجانے کا شوق تھا۔ اس کے میک اپ کرنے والے کئی تھے اور وہ دن میں کم از کم تین کپڑے کے جوڑے بدلتا تھا۔
-11 اڈولف ہٹلر کی یہ خوبی تھی کہ وہ ایک جذباتی مقرر تھا اور صریح جھوٹ کو اس انداز سے کہتا تھا گویا وہ حقیقت ہے۔
-12 اڈولف ہٹلر کو تقریباً ہر روز ریڈیو پر تقریر کرنے کا شوق تھا اور اس کے سامعین کی تعداد لاکھوں بلکہ کروڑوں میں تھی۔
-13 اڈولف ہٹلر اپنی تقریر میں مجمع سے ’’ دوست۔ بھائی اور بہن‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتا تھا۔
(Freunde, Brüder, Schwestern)
-14 اڈولف ہٹلر کو اپنی تصویریں کھنچوانے کا بہت شوق تھا۔
-15 ہٹلر ایک غریب اور مفلوک الحال خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔
-16 اڈولف ہٹلر سخت غربت و لاچاری کا شکار تھا۔
-17 ہٹلر میں زبردست انتظامی صلاحیت تھی اور انسانوں کا اپنے مفاد میں استعمال کرنے کا گر جانتا تھا۔
-18 ہٹلر ایک زبردست مقرر تھا اور اس کی تقریر کا بہت اثر پڑتا تھا۔
-19 اڈولف ہٹلر لوگوں کو جذباتی طور پر بلیک میل کرتا تھا او ران کے ذریعہ اپنا کام نکالنے کی خاطر کسی حد تک بھی جاسکتا تھا۔
-20 اڈولف ہٹلر نے(CARONY PATROTISM) دیش بھگتی کو اپنے اقتدار کا ذریعہ بنایا تاکہ سننے والوں پر ایک کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔
-21 اڈولف ہٹلر نے جرمنی کی جاسوسی ایجنسی گسٹاپو کا استعمال کیا ۔ اس وقت انفارمیشن ٹکنالوجی نہیں تھی۔
-22 اڈولف ہٹلر اپنے سیاسی اور نظریاتی مخالفین کے خلاف زبردست پروپگنڈہ کیا اوراس میں اس نے اپنی تقریری صلاحیت کا بھر پور استعمال کیا۔
-23 ہٹلر ایک منتخبہ صدر مملکت تھا لیکن بعد میں اس نے ایک ڈکٹیٹر کا روپ دھارلیا۔
-24 (SCHUTZ STAFFEL) ہٹلر کی ایک نیم فوجی تنظیم تھی جس کی وجہ سے وہ برسراقتدار آیا۔
-25 اڈولف ہٹلر اور نازی پارٹی کا ایقان (LEBENSRAUM) یعنی گریٹر جرمنی یا اکھنڈ جرمنی میں تھا کیوں کہ پہلی جنگِ عظیم کے بعد جرمنی ٹوٹ کر کئی ٹکڑوں میں تبدیل ہوگیا تھا۔
-26 اس کا خیال تھا کہ جرمنی پر دوسروں نے قبضہ کرلیا ہے۔
27 اڈولف ہٹلر اس وقت برسراقتدار آیا جب جرمنی میں افراطِ زر (INFALTION) عروج پر تھا۔
-28 مخالف پارٹیوں کو وہ کرپٹ اور بزدل کہتا تھا اور ان کے پیچھے اپنے (GESTAPO) کے لوگوں کو لگا کر یا تو گرفتار کروادیتا یا قتل کروادیا کرتا تھا۔
-29 ہٹلر اقلیتوں سے شدید نفرت کرتا تھا اور اس کا شکار زیادہ تر یہودی اور کمیونسٹ ہوئے ۔
-30 اقتدار پر آنے کے بعد اس نے جرمنی کے محکمۂ تعلیم کے عہدیداروں کو حکم جاری کیا کہ وہ اس کے خیالات کو تسلیم کریں اور اس کو نصاب کا حصہ بنائیں۔
-31 ہٹلر نے جرمنی کی تاریخ کو نصاب میں اس طرح تبدیل کیا جیسا کہ اس کے سیاسی نظریات تھے۔
-32 ہٹلر کا یک پروپیگنڈہ منسٹر تھا جس کا نام گوبلز تھا جس کا کام ہٹلر کے ہر چھوٹے کام کو بڑا کرکے دکھانا تھا۔ مبالغہ آمیزی سے کام لینا تھا۔ یہ وزیر یہاں تک کہتا تھا کہ جھوٹ کو اتنا دہراؤ کہ وہ سچ ثابت ہو۔ اس زمانے میں ہٹلر کے پاس (I.T.Cell) نہیں تھا۔
-33 ہٹلر نہ بیوی رکھتا تھا اور نہ بچے۔ اس نے شادی ہی نہیں کی اور وہ فیملی لائف کو پسند نہیں کرتا تھا کیوں کہ وہ خود پسند تھا۔
-34 اڈولف ہٹلر ایک ایک دن میں تین چار جلسے کرتا تھا اور اپنی تقریروں سے جرمنوں کو ابھارتا۔
-35 اڈولف ہٹلر نے پیسے وصول کرنے کی خاطر کارپوریٹ سیکٹر کو بہت آزادیاں دیں اور جنگی آلات ۔ ہوائی جہاز بنانے میں ان کا سرمایہ حاصل کیا۔
-36 ہٹلر نے ملک کی عدلیہ پر زبردست اثر ڈالا اور کوئی فیصلہ حکومت کے خلاف نہیں آسکتا تھا۔
-37 ملک کی نچلی اور اعلیٰ عدالتیں حکومت کے خلاف فیصلہ صادر کرنے سے گریز کرتی تھیں۔
اب قارئین کرام خود فیصلہ کریں کہ اس شخص کے مماثل دوسرا قائد دنیا میں کون ہے جو صرف اپنی آئیڈیالوجی سے اپنا ملک چلاتا ہے۔
کیا ہمارے ملک میں بھی ایسے حالات رونما ہونے جارہے ہیں کیوں کہ موجودہ زعفرانی حکمرانوں کو اب بھیانک فسادات۔ آگ و خون کے ماحول میں انتخابی جنگ میں فتح حاصل کرنا ہے۔ ہمیں خود کو ذہنی طور پر تیار رہنا ہے۔ جو ہونے والا ہے نوشتۂ دیوار ہے۔
آثارِ قدیمہ کی نگہداشت میں سات سو سالہ مسجد صرف اسلئے ڈھادی جاتی ہے کہ اس کی تعمیر ‘ تعمیری ضوابط کے خلاف ہے۔ عدلیہ حکومت کی محکوم ہوچکی ہے۔ کم از کم ہائیکورٹ کی سطح تک حکمران طبقہ اپنا اثر قائم کرسکا ہے اور فیصلے اپنی مرضی سے حاصل کئے جارہے ہیں ۔
سپریم کورٹ سے صرف لفظی حمایت ہوسکتی ہے لیکن جب فیصلہ کا مرحلہ آتا ہے تو تصویر بالکل بدل جاتی ہے۔ عدلیہ میں نچلی سے اونچی سطح تک راشٹریہ سیوک سنگھ کے تربیت یافتہ اور ان کے نظریات سے متاثر ججس کا تقرر کیاجاچکا ہے جو اپنے آقاؤں کے اشاروں پر فیصلہ صادر کرتے ہیں۔ چار سو سالہ قدیم مسجد میں پوجا کی اجازت دی جاتی ہے۔ ملک میں مسلمان اپنے آپ کو محصور سمجھتا ہے۔
پتہ نہیں کب فسادات پھوٹ پڑیں اور شمالی ہند میں خون اور آگ کی ہولی میں کئے جانے والے انتخابات میں یکطرفہ کامیابی حاصل کرلیں اور پھر مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بناکر ان کی شناخت۔ قومیت اور جائیدادیں ختم کردی جائیں۔ مسلمانوں کے عائلی مسائل میں مداخلت کے ذریعہ دل آزاری کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ قبائلی پندرہ کروڑ آبادی والے افراد اس قانون سے مستثنیٰ ہوں گے۔ سکھوں اور عیسائیوں کو یہ بات منظور نہیں۔
اڈولف ہٹلر کے چیلوں سے اور کیا امید رکھی جاسکتی ہے۔