[]
قبل ازیں بتاریخ27؍جون2004ء اس سوال کی اشاعت ہوئی تھی
جواب:- اپنی دس سالہ منکوحہ بیوی کو طلاق دینے اور مابعد اثرات کے بارے میں آپ نے سوال کیا ہے۔ یہ سوئے اتفاق ہے کہ وہ حالات و واقعات ایک مطبوعہ جواب روزنامہ منصف کے رواں کالم میں بتاریخ27؍جون2004ء شائع ہوئے تھے‘ بالکل آپ کے سوال میں نظر آتے ہیں۔ لہٰذا آپ کی تشفی کے لئے اورقارئین کرام کی معلومات کیلئے یہی بات مناسب معلوم ہوتی ہے کہ اس جواب کی دوبارہ اشاعت کی جائے۔
’’ جائز اعمال میں طلاق کو بدترین عمل تسلیم کیاگیا ہے۔ آپ نے اپنی بیوی کو طلاق دینے سے متعلق رائے طلب کی ہے۔ آپ نے جو حالات بیان کئے ہیں وہ طلاق کے متقاضی نہیں۔ آپ کے مجوزہ قدم سے ایک خاندان پر تباہی آجائے گی۔ اور آپ کا خاندان بھی خوش نہیں رہے گا۔ اس بات کا احتمال رہے گا کہ آپ کے اور آپ کے دیگر افرادِ خاندان کے خلاف زیرِ دفعہ498-A تعزیرات ہند کی کارروائی ہو۔ علاوہ ازیںDVC قانون کی بھی مار پڑے گی اور شائد لاکھوں روپیہ جرمانہ کی رقم ادا کرنا پڑے گا۔ سب پر مقدمہ چلے گا اور شائد گرفتاری کے بعد ضمانت پر رہائی اور اختتام مقدمہ پر سزائے قید بھی بھگتنا پڑے۔
آپ کی اپنی بیوی سے شکایت ہے کہ وہ تیز طرار‘ شوخ ‘ نافرمان اور زبان دراز ہے۔ آپ کے بموجب اس نے آپ کی مرضی کے بغیر اپنے ماں باپ کے گھر جاکر نافرمانی کی۔ لہٰذا وہ طلاق کی مستحق ہے۔
شائد آپ خود کو شہنشاہِ ہند جلال الدین محمد اکبر سمجھتے ہیں جو اپنے کسی صوبہ دار کی نافرمانی کو بغاوت سمجھتا تھا۔ کیا والدین کے گھر جانا کوئی ایسا جرم ہے جس کی آپ اس قدر بھیانک سزا تجویز کررہے ہیں۔ جو شائد کسی عورت کے لئے موت سے کم نہیں۔ زبان درازی سے آپ کی کیا مراد ہے؟ اس میں شائد آپ کی کسی نازیبا بات کا معقول جواب دیا ہوگا کیوں کہ آپ کی نامعقولیت کی زبان خود آپ کی وہ تحریر ہے یعنی سوال جس کی اشاعت ہم مناسب نہیں سمجھتے۔
جنابِ عالی! شادی کے پندرہ روز بعددمّام تشریف لے گئے اور اپنے والدین کی خدمت پر اپنی نوبیاہتا بیوی کو مامور کیا۔ تین سال تک آپ نے اسے قیدِ تنہائی میں رکھا۔ کیا آپ نے شادی اس غرض سے کی تھی کہ اس کے جذبات و احساسات سے کھلواڑ کریں۔ اگر آپ ہر ماہ جیب خرچ کے لئے اسے دو ہزار روپیہ بھیجتے تھے تو آپ نے کونسا تیر مارا۔ ہر شخص پر حسبِ حیثیت اپنی بیوی کی کفالت کا فرض ہے۔ اگر اس کے مزاج میں تلّون آگیا ہے تو اس کی بھی ذمہ داری آپ پر ہوگی کیوں کہ آپ نے اسے Bilogical Necessity Eplepsy سے محروم رکھا ۔ شکر کیجئے کہ وہ ہسٹیریا جیسے امراض میں مبتلا نہیں ہوئی۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ مرد سے مسلسل دوری کی وجہ سے عورتیں ان امراض میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔ اگر اس نے آپ کے والدین کی خدمت نہیں کی تو ایسا کونسا جرم کیا جس کی آپ ایسی بھیانک سزا دینا چاہتے ہیں۔ آپ جانتے ہیںمرد پر عورت کے حقوق کیا کیا ہیں؟ ہماری رائے میں آپ نے اس کے کسی بھی فرض کو پورا نہیں کیا۔ آپ صاحبِ حیثیت ہیں۔ بہت کماتے ہیں۔ لاکھوں کروڑوں میں کھیلتے ہیں۔ آپ اپنے والدین کی خدمت کے لئے دوہمہ وقتی نرسس کا تقرر کرسکتے تھے۔ آپ نے اپنے والدین کی خدمت کا تمام تر فرض اپنی بیوی پر ہی کیوں عائد کردیا؟ آپ نے شادی کی ہے ۔ کسی باندی یا کنیز کو خرید کر گھر نہیں لائے جو دن رات ہاتھ باندھے آپ کے والدین کی خدمت میں اپنے ہونٹوں پر قفل لگا کر کھڑی رہے گی۔ وہ شوخ و طرار ہے سے آپ کا کیا مطلب ہے ناقابل فہم ہے؟
آپ نے کوئی ایسی بات نہیں لکھی جس کی بنیاد پر آپ کو اس معصوم سی زندگی کو برباد کرنے کی رائے دی جائے ۔ اگر عورت نافرمان ہے‘ سرکشی پر آمادہ ہے‘ اطاعت نہیں کررہی ہے تو بھی اسلام فوراً طلاق کا حکم نہیں دیتا بلکہ اس کے لئے مرد کو خصوصی اختیارات دیئے ہیں تاکہ وہ نرمی اور سختی سے اصلاح کی بھرپور کوشش کرے۔ گھر کے اختلافات گھر ہی میں رہیں۔ طلاق کی نوبت نہ آئے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو تم انہیں سمجھاؤ ‘ خواب گاہوں میں ان سے الگ رہو۔ اس پر بھی اصلاح نہ ہو تو مارو۔ اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو ان پر میادتی کے بہانے تلاش نہ کرو ۔ بے شک اللہ سب سے اونچا اور بڑا ہے۔ (النساء ۳۴) جو عورت سرکشی اور نافرمانی پر آمادہ ہو تو اس کی اصلاح کا طریقہ اس آیت میں بیان کیا گیا ہے اسے وعظ و نصیحت کی جائے اور اسے سمجھایا جائے۔
اس کی صورت یہ ہے کہ اس کے اندر اللہ اور آخرت کا خوف پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ ایک دوسرے کے حقوق اور ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی جائے اور خاندان کی فلاح و بہبود کا احساس ابھارا جائے۔ یہ سب کچھ نرمی اورمحبت ہی سے ممکن ہے۔ اس میں اگر کامیابی نہ ہو تو حسبِ ارشادِ باری تعالیٰ خوابگاہوں میں ان سے الگ رہو۔ یہ ایک نفسیاتی تدبیر ہے ۔ اس پر مرد اسی وقت عمل کرسکتا ہے جب کہ خود اس کے اندر غیر معمولی ضبطِ نفس ہو۔ اگر وہ عزتِ نفس کا مظاہرہ کرے تو اس بات کا امکان ہے کہ عورت سرکشی سے باز آجائے۔
جنسی جذبہ بڑا شدید جذبہ ہے۔ جوشخص اس معاملے میں قوت ارادی کا ثبوت فراہم کرے عورت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ بعض عورتیں ایسی ہوسکتی ہیں جن کے لئے یہ علاج کارگر نہ ہو۔
اس صورت میں قرآن مجید میں عورت کو مارنے کی بھی اجازت دی ہے۔ یہ بات بڑی بھیانک معلوم ہوتی ہے لیکن ایک تو یہ کہ اس اجازت پر عمل اس وقت ہوگا جب کہ عورت پہلے دو طریقوں سے اصلاح قبول نہ کرے اور اپنی سرکشی پر قائم رہے۔ اس عمل کو پہلے ہی قدم پر نہیں بلکہ آخری چارۂ کار کے طورپر اختیار کیا جائے گا۔ اصلاح کے لئے مارنے کی اجازت ہے لیکن یہ مار سخت نہیں ہونی چاہیے۔
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں ‘ مسواک یا اس جیسی کسی چیز سے مارا جائے۔ یعنی ایسا مار جس سے جسم پر کوئی نشان نہ پڑے۔ اس سے ہٹ کر وحشیانہ طریقہ سے اگر کوئی شخص عورت کی مار پیٹ شروع کردے تو اسلامی قانون اس کے خلاف حرکت میں آجائے گا۔ امام نووی ؒفرماتے ہیں کہ شریعت میں جس حد کے اندر عورت کو مارنے کی اجازت دی ہے اس سے بھی اگر عورت انتقال کرجائے تو اسے قتلِ خطا سمجھا جائے گا اور شوہر اور اس کے خاندان والوں کو معاوضہ ادا کرنا واجب ہوجائے گا۔ قتل خطا کا کفارہ تنہا شوہر کو ادا کرنا ہوگا۔ قتلِ خطا بہ معنی Culpable Homicide not amounting to Murder
جنابِ عالی ! اب آپ یہ بتائیں کہ آپ کہاں کھڑے ہیں۔ دولت مند بننے کی خانہ برباد آرزؤں نے آپ کو اپنی بیوی سے تین سال دور رکھا ۔ اوپر بتائی ہوئی صورت ایسی حالت میں اپنا اثر بتائے گی جب آپ اپنی بیوی کے ساتھ ہیں اور اس نے سرکشی اختیار کررکھی ہے۔ ایسی صورت میں بھی باریٔ تعالیٰ کو طلاق ناپسند ہے۔ اور اصلاح کا راستہ بتارہے ہیں۔ ہمارے رائے میں آپ کی بیوی آپ کے بموجب تیز و طرار ہے ‘ نافرمانی وغیرہ کے ذمہ دار آپ خود ہیں۔ اس پر طرّہ یہ کہ آپ طلاق دینا چاہتے ہیں۔ آپ کی بیوی نے کھلی ہوئی بے حیائی کا کوئی کام نہیں کیا۔ آپ اپنے مزاج سے چنگیزیت کے جراثیم نکال پھینکئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہی جراثیم آپ کی ہلاکت ہے۔
آپ کا مجوزہ اقدام ایک گھر ۔ ایک خاندان کو مصیبت میں ڈال دے گا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس بدعملی کے صدمے سے آپ کی بیوی کا کوئی قریبی عزیزجاں بحق ہوجائے۔ ایسی صورت میں آپ قتل کے موجب بنیں گے ۔ دنیا آپ کو معاف نہیں کرے گی اور آخرت میں بھی پھٹکار ہوگی۔ آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ آپ کا ارادہ مہر ادا کردینے کا ہے۔ آپ نے اپنی بیوی کے جہیز کے سامان اور زیورات کو جوں کا توں رکھا ہے۔ جسے آپ انتہائی ایمانداری کے ساتھ واپس کردینا چاہتے ہیں۔ خوب! زیورات آپ کی بیوی کی امانت ہیں۔ اگر آپ نے خیانت نہیں کی تو کونسا احسان نہ کیا
اک خیانت کے نہ کرنے پر یہ ناز
شرم کی جا ہے تری عمر دراز
میرے عزیز! زندگی مختصر ہے۔ جوانی اس سے مختصر اور حسن اس سے بھی مختصر۔ اپنی بیوی کا حسن تو آپ نے اپنے ‘ تین سالہ دوری سے غارت کرہی دیا ہوگا۔ تین بہاریں۔ تین خزاں بن کر اس پر گزرگئیں۔ آپ کے بموجب آپ نے شادی صرف گوری رنگت اور خوبصورت کی وجہ سے کی۔ آپ کا مطالبہ کچھ اور نہیں تھا۔ آپ نے جوڑے کی رقم وصول نہیں کی ۔ واہ کیا قدر آپ نے اس حسن کی کی جو قدرت کی طرف سے آپ کی بیوی کو ودیعت ہوا تھا اور اب جبکہ دوبارہ مل کر زندگی گزارنے کا وقت آیا ہے تو آپ طلاق کے بارے میں سوچنے لگے ۔ کیا کسی اور حسین و جمیل دوشیزہ کی زندگی پامال کرنے کا ارادہ ہے! آپ نے صرف اور صرف اپنی اناء کے بارے میں سوچا۔ کبھی آپ نے اپنی دور افتادہ بیوی کے جذبات و احساسات کے بارے میں غور کیا۔ دل کو ٹٹولئے! شائد آپ کے دل میں عرقِ انفعال کے چشمے پھوٹیں۔
اپنے تباہ کن ارادہ سے باز آجائیے۔ طلاق کا خیال تک اپنے دل میں نہ لائیے۔ کلام پاک کی تلاوت کیجئے ۔ معنی اور مطالب کو سمجھئے۔ دنیا کے سب سے عظیم مصلح کو اپنا آئیڈیل بنائیے۔ یہی آپ کے مرضِ قلب کا علاج ہے۔