[]
سروے میں شامل تین چوتھائی صحافیوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ایک مخصوص سیاسی پارٹی کی طرفداری ہو رہی ہے، اور 5 میں سے 4 نے کہا کہ نیوز میڈیا بی جے پی کی حمایت کرتا ہے۔
لوک نیتی اور سی ایس ڈی ایس کی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جس نے کچھ حیران کرنے والے اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔ اس رپورٹ میں ایک سروے کا حوالہ پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کم از کم 82 فیصد صحافیوں کا ماننا ہے کہ ان کے میڈیا ادارے بی جے پی کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔ ساتھ ہی سروے میں شامل 4 میں سے تقریباً 3 صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان دنوں نیوز چینلز اپنا کام صحیح طریقے سے انجام نہیں رہے اور وہ ’کم آزاد‘ ہیں۔ علاوہ ازیں 55 فیصد صحافی محسوس کرتے ہیں کہ موجودہ دور میں اخبارات ’کم آزاد‘ ہیں۔
لوک نیتی- سی ڈی ایس رپورٹ میں جو نتائج پیش کیے گئے ہیں وہ موجودہ دور میں میڈیا کے لیے انتہائی فکر انگیز ہیں۔ اس رپورٹ کو ’میڈیا اِن انڈیا: رجحانات اور پیٹرنز‘ عنوان سے ریلیز کیا گیا جس میں 206 صحافیوں کے نظریات کو شامل کیا گیا جو کہ مختلف میڈیا پلیٹ فارمز (ڈیجیٹل، پرنٹ اور آن لائن) سے تعلق رکھتے ہیں اور مختلف زبانوں (انگریزی، ہندی اور علاقائی زبانوں) کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان صحافیوں میں 75 فیصد مرد تھے اور سروے میں شامل تقریباً 37 فیصد صحافی 46 سال سے زیادہ عمر کے تھے۔
میڈیا اداروں کی سیاست:
سروے میں شامل تین چوتھائی صحافیوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ایک مخصوص سیاسی پارٹی کی طرفداری ہو رہی ہے، اور 5 میں سے 4 نے کہا کہ نیوز میڈیا بی جے پی کی حمایت کرتا ہے۔ جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں وہ میڈیا کی زیادہ غیر جانبداری کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں، کیونکہ صرف 8 فیصد صحافیوں کا خیال تھا کہ میڈیا نے اپوزیشن جماعتوں کو اچھی طرح سے کور کیا، اور 13 فیصد نے کوریج کو متوازن قرار دیا۔
سروے میں شامل 4 میں سے تقریباً 3 صحافیوں کا خیال تھا کہ ان دنوں نیوز چینلز اپنا کام صحیح طریقے سے کرنے کے لیے ’کم آزاد‘ ہیں، جبکہ نصف سے زیادہ (55 فیصد) نے محسوس کیا کہ اخبارات ’کم آزاد‘ ہیں۔ یہ تاثر آن لائن نیوز ویب سائٹس کے لیے اتنا مضبوط نہیں تھا کیونکہ آن لائن ویب سائٹس کے لیے یہ رائے 36 فیصد تھی۔ ساتھ ہی نیوز چینلز میں کام کرنے والوں میں سے کم از کم 72 فیصد نے کہا کہ اخبارات کے مقابلے میں ان کی آزادی میں کمی آئی ہے۔
کیا خبروں کی کوریج خراب ہو گئی ہے؟
رپورٹ میں ایک پیشہ کے طور پر صحافت کے وقار اور احترام میں کمی کا تاثر پیش کیا گیا ہے۔ صحافیوں کے ایک بڑے حصے نے خبر رساں اداروں میں صحافت کے معیار پر عدم اطمینان کا اظہار کیا، جو مختلف میڈیا پلیٹ فارمز کی خبروں کی کوریج کے معیار کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے ہیں۔ 5 میں سے 4 صحافیوں کا خیال تھا کہ ٹی وی چینلز پر خبروں کی کوریج خراب ہو گئی ہے۔ تاہم، 5 میں سے 3 صحافی اخبارات میں خبروں کی کوریج اور معیار میں گراوٹ پر فکر مند تھے۔ واضح رہے کہ صحافیوں کو آن لائن نیوز میڈیا ویب سائٹس پر کچھ اعتماد تھا کیونکہ 30 فیصد کا خیال تھا کہ آن لائن نیوز ویب سائٹس کی جانب سے خبروں کی کوریج میں بہتری آئی ہے۔
انگریزی زبان کے صحافیوں (85 فیصد) میں ہندی (78 فیصد) اور دیگر زبانوں کے صحافیوں (69 فیصد) کے مقابلے نئے چینلز پر میڈیا کوریج میں بگاڑ کا تاثر زیادہ تھا۔ انگریزی اخباروں میں کام کرنے والے صحافیوں میں سے کم از کم 67 فیصد کا خیال تھا کہ اخبارات کی کوریج خراب ہو گئی ہے، جبکہ ہندی اخبارات والوں کے تعلق سے یہ 54 فیصد اور دوسری زبانوں کے اخبارات میں کام کرنے والوں کے تعلق سے یہ 62 فیصد ہے۔
کیا صحافی اپنا کام کرنے کے لیے آزاد ہیں؟
سروے میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ صحافیوں میں ملازمت چھوٹ جانے کا خوف ہے، اس وجہ سے سوشل میڈیا یا میسجنگ پلیٹ فارمز پر آزادانہ طور پر وہ اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ سروے رپورٹ کے مطابق 5 میں سے 2 صحافیوں نے سوشل میڈیا پر اپنی ذاتی رائے شیئر کرنے میں کبھی جھجک محسوس نہیں کی۔ حالانکہ تقریباً ایک تہائی صحافی (36 فیصد) نے اپنی ذاتی رائے شیئر کرنے میں کئی بار جھجک محسوس کی۔
صحافی ہونے کا تناؤ:
اس تحقیق میں صحافیوں کی ذہنی اور جسمانی تندرستی پر میڈیا کی ملازمتوں کے منفی اثرات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس نے انکشاف کیا کہ صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے پیشے کی متقاضی نوعیت کی وجہ سے اپنی ذہنی اور جسمانی صحت پر منفی اثرات کا تجربہ کیا ہے۔ 10 میں سے 7 صحافیوں کو کام کے دباؤ کی وجہ سے ذہنی تناؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ خواتین صحافی اپنے مرد ہم منصبوں کے مقابلے ذہنی تناؤ سے زیادہ متاثر ہوئیں۔ سروے میں شامل مردوں اور عورتوں میں سے کم از کم 15 فیصد نے کہا کہ وہ ملازمت کے ماحول سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں 34 فیصد مردوں کا کہنا ہے کہ وہ بالکل متاثر نہیں ہوئے، اور 15 فیصد خواتین نے بھی متاثر نہ ہونے کی بات کہی۔
کیا ملازمت کی سیکورٹی ہے؟
جب صحافیوں سے سیاسی جھکاؤ کی وجہ سے ان کے ادارے میں ملازمتوں کی چھنٹنی کے بارے میں پوچھا گیا تو نتائج بتاتے ہیں کہ نصف (52 فیصد) صحافیوں نے اپنے ادارے کے اندر ایسی کارروائی کی کوئی مثال نہیں دی۔ تاہم 16 فیصد صحافیوں نے ملازمتوں سے چھنٹنی کا تجربہ کیا یا دیکھا، یعنی ساتھیوں کو ان کے سیاسی جھکاؤ، نظریے یا رائے کی وجہ سے ملازمت چھوڑنے کے لیے کہا گیا۔
جب صحافیوں سے ان کے سیاسی جھکاؤ کے سبب ملازمتیں چھینے جانے پر ان کی پریشانی کے بارے میں پوچھا گیا، تو تقریباً 3 میں سے 1 (31 فیصد) نے اپنے خدشات کا اظہار کیا کہ کسی دوسری جگہ انھیں ملازمت مل سکے گی۔ علاوہ ازیں 15 فیصد نے معمولی طور پر بے چین ہونے اور 16 فیصد نے اپنی ملازمت ختم ہونے کی صورت میں انتہائی بے چین ہونے کی بات کہی۔
بیشتر صحافی اپنی ملازمت کے تحفظ کے بارے میں بھی فکر مند تھے کیونکہ 5 میں سے 3 صحافیوں نے بتایا کہ ان کے ادارے میں لوگوں کو اخراجات کم کرنے اور معاشی استحکام برقرار رکھنے کے لیے اپنی ملازمتیں چھوڑنے کے لیے کہا گیا تھا۔ انگریزی میڈیا میں کام کرنے والے صحافی نمایاں طور پر اس سے متاثر ہوئے کیونکہ انگریزی میڈیا میں کام کرنے والے 4 میں سے 3 (77 فیصد) صحافیوں نے کہا کہ ان کے ادارے میں لوگوں کو ملازمتیں چھوڑنے کے لیے کہا گیا تھا۔ سروے میں شامل ہندی میڈیا کے 47 فیصد صحافیوں نے کہا کہ ان کے ادارے کے لوگوں کو چھوڑنے کے لیے کہا گیا، جبکہ دیگر زبانوں کے لیے یہ شرح 50 فیصد ہے۔
سروے میں دلچسپ بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ صحافیوں میں سے نصف کے قریب اپنی ملازمتیں ختم ہونے کے بارے میں فکر مند تھے اور تقریباً 5 میں سے 1 انتہائی بے چین نظر آئے۔ سینئر صحافیوں (16 فیصد) کے مقابلے درمیانی کیریئر کے صحافیوں (17 فیصد) میں ملازمتوں سے محروم ہونے کا خوف زیادہ پایا گیا۔ یہ بھی اخذ کیا گیا کہ خواتین صحافی اپنے مرد ہم منصبوں کے مقابلے میں لاگت میں کمی کی وجہ سے ممکنہ ملازمت کے نقصان کے بارے میں زیادہ خوفزدہ ہیں۔
کیا سوشل میڈیا نے صحافت کی مدد کی ہے؟
جہاں ایک طرف سوشل میڈیا نے معلومات کی ترسیل کی رفتار کو تیز کر دیا ہے، وہیں صحافت پر سوشل میڈیا کے اثرات پر منقسم رائے دیکھنے کو ملی۔ اکثریت کا خیال تھا کہ سوشل میڈیا صحافی کے لیے اچھا اور برا دونوں ہے۔ 35 فیصد نے اسے صحافت کے لیے برا سمجھا، جبکہ 40 فیصد نے کہا کہ سوشل میڈیا صحافت کے لیے یکساں طور پر اچھا اور برا ہے۔ اس سروے میں صحافیوں نے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے غلط معلومات حاصل کرنے کے بارے میں بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ تقریباً تین چوتھائی صحافیوں نے سوشل میڈیا پر غلط معلومات کے ذریعے گمراہ کیے جانے پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا اور 15 فیصد کچھ حد تک فکر مند نظر آئے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔