[]
کے کے پارک کی دھوکا دہی کی کارروائیاں کاروباری اداروں اور تنظیموں کے ایک پیچیدہ نیٹ ورک کی جانب اشارہ کرتی ہیں جنہیں جرائم پیشہ افراد دھوکا دہی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
کے کے پارک میں جو ملازمین فریب پر مبنی کام کرنے سے انکار کرتے ہیں انہیں تشدد، فاقہ کشی اور یہاں تک کہ قتل و غارت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈی ڈبلیو نے ایشیا کے سب سے خطرناک ‘سکیم کمپاؤنڈ’ کے بارے میں تحقیقات کی ہے۔ایرون کو جب ایک ٹیک کمپنی نے تھائی لینڈ میں ایک ڈریم جاب کی پیشکش کی تو اسے اپنی قسمت پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اس کے لیے بھاری تنخواہ کے ساتھ ساتھ افریقہ کے جنوبی خطے سے نکلنے کا یہ بہترین موقع تھا۔ ایرون کہتے ہیں، “میں بیرون ملک کام کرنا چاہتا تھا اور ایک دن مجھ سے رابطہ کیا گیا، بنکاک پہنچنے سے پہلے تک مجھے لگا کہ سب کچھ قانونی طریقے سے ہو رہا ہے۔”
ایرون کا ایئرپورٹ پر گرم جوشی سے استقبال کیا گیا اور اسے مشرقی افریقہ کے دو نوجوانوں کے ساتھ گاڑی میں بٹھا دیا گیا۔ ایرون کے بقول، “ہمیں ایئرپورٹ سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ہوٹل میں جانا تھا لیکن وہ ہمیں کسی دوسرے مقام پر لے کر جا رہے تھے۔” گاڑی میں آٹھ گھنٹے کے سفر کے بعد انہیں تھائی لینڈ کے سرحدی شہر مے سوت سے دریائے موئی کے ذریعے میانمار کے جنگ زدہ حصے میں اسمگل کر دیا گیا۔
ٹریفکنگ کا بحران
ایرون اور اس کے ساتھیوں کو ‘کے کے پارک’ نامی جیل نما کمپاؤنڈ میں اسمگل کیا گیا جہاں، امریکہ، یورپ اور چین میں لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے ہزاروں افراد کو جرائم کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق میانمار میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد کو ایسے ‘سکیم سینٹرز’ میں کام کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو نے تحقیقات کے دوران کمپاؤنڈ سے بچ جانے والے کچھ متاثرہ افراد سے بات چیت کی۔ انہوں نے وہاں وسیع پیمانے پر نگرانی، تشدد اور یہاں تک کہ ہفتہ وار قتل کے واقعات کے بارے میں بتایا۔
مغربی افریقہ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان لوکاس نے کہا، “ہم دن میں 17 گھنٹے کام کرتے تھے، بغیر کسی شکایت، چھٹیوں، اور آرام کے۔” ان کے بقول، “اور اگر ہم یہ کہتے کہ ہم وہاں سے جانا چاہتے ہیں، تو وہ ہمیں کہتے تھے کہ ہمیں بیچ دیا جائے گا – یا مار دیا جائے گا۔”
مقامی سہولت کار
ڈی ڈبلیو نے کمپاؤنڈ کے اندر سے لی گئی خصوصی تصاویر کا جائزہ لیا اور ایسے کئی زندہ بچ جانے والے افراد سے گفتگو کی جنہیں وہاں رکھا گیا تھا۔ ان سب نے گارڈز کی یونیفارم پر لگے بیجز کو پہچان لیا جو کہ سرکاری بارڈر گارڈ فورس کا نشان ہیں۔ یہ سابق باغیوں کا ایک گروپ ہے جس نے ایک دہائی قبل اپنے علاقوں پر آزاد حکومت کے بدلے میانمار کے جنتا سے لڑائی بند کر دی تھی۔ ان کے سپاہی کے کے پارک میں موجود ہیں۔ لیکن کئی ذرائع کے مطابق آپریشن کے مالکان چینی ہیں۔
ڈی ڈبلیو نے دھوکا دہی کا شکار ہونے والے متعدد متاثرین کی مدد سے پیسوں کی منتقلی کی چھان بین کی تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ ادائیگیاں کیسے کی گئیں۔ منی ٹریل کے ذریعے ہم کرپٹو کرنسی والیٹس تک پہنچے جو ‘کے کے پارک’ کی طرف سے متاثرین کے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ وہاں سے، فنڈز کو دوسرے والیٹس میں منتقل کیا گیا، جو ڈیجیٹل اکاؤنٹس کی طرح کام کرتے ہیں اور کرپٹو کرنسیوں کو اسٹور کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک والیٹ تھائی لینڈ میں مقیم ایک چینی تاجر وانگ یی چینگ نے کھولا تھا۔ اس نے کے کے پارک کے زیر استعمال والیٹ سے دسیوں ملین ڈالر مالیت کی کرپٹو کرنسی وصول کی تھی۔
وانگ چین کے بیرون ملک مقیم کاروباری افراد کے ایک وسیع نیٹ ورک کا حصہ ہیں، جو کہ ایک چینی مافیا باس سے جڑا ہے۔ جب وانگ KK کے زیر انتظام والیٹ سے براہ راست منتقلی حاصل کر رہے تھے، اس وقت وہ تھائی-ایشیا اکنامک ایکسچینج ایسوسی ایشن کے نائب صدر کے عہدے پر فائض تھے۔ یہ تنظیم بنکاک میں چینی اور تھائی تعلقات کو فروغ دیتی ہے۔ تھائی-ایشیا تنظیم اور اوورسیز ہانگ مین کلچر ایکسچینج سینٹر ایک ہی عمارت میں واقع ہیں، جس پر سن 2023 میں پولیس نے غیر قانونی طور پر کام کرنے اور چینی منظم جرائم کے محاذ کے طور پر کام کرنے کی وجہ سے چھاپہ مارا تھا۔
یہ تنظیمیں وان کووک کوئی عرف ‘بروکِن ٹوتھ’ سے قریبی تعلق رکھتی ہیں، جس نے سن 2018 میں ‘ورلڈ ہانگ مین ہسٹری اینڈ کلچر ایسوسی ایشن’ کا آغاز کیا تھا۔ اس تنظیم پر امریکہ نے منظم جرائم میں ملوث ہونے کی وجہ سے پابندی عائد کر رکھی ہے۔
لیکن وان کی ‘ہانگ مین’ تنظیم بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کو بھی فروغ دیتی ہے، جو کہ ایک ٹریلین ڈالر کی مالیت کا انفرااسٹرکچر منصوبہ ہے۔ اس کا مقصد چین کو عالمی معیشت میں مزید ضم کرنا ہے۔ اسے نیو سلک روڈ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یو ایس انسٹی ٹیوٹ فار پیس میں منظم جرائم کے ایک سرکردہ ماہر جیسن ٹاور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وان کووک کوئی کے مطابق وہ کافی پہلے کارٹیلز کے لیے لڑتا تھا، اور اب وہ چینی کمیونسٹ پارٹی کے لیے لڑتا ہے۔”
جس علاقے میں کے کے پارک بنایا گیا تھا وہ چین کی سرمایہ کاری کے لیے اہم علاقہ ہے۔ بی آر ای منصوبے کے تحت چینی حکومت نے کے کے پارک کے آس پاس کے ترقیاتی منصوبوں کو سراہا بھی تھا، اور پھر بڑے پیمانے پر دھوکا دہی کے الزامات کے بعد خود کو ان سے الگ کر لیا تھا۔ چین کی سرکاری بات چیت میں کے کے پارک کا بظاہر ذکر نہیں ہے اور نہ ہی بیجنگ حکومت نے یہاں دیگر ترقیاتی منصوبوں کی طرح سنگِ بنیاد کے موقع پر تقریبات منعقد کی تھیں۔ اس کے بجائے، کے کے پارک کو دھوکا دہی کے مقصد سے ہی بنایا گیا تھا۔
وسیع تر نیٹ ورک
کے کے پارک کی دھوکا دہی کی کارروائیاں کاروباری اداروں اور تنظیموں کے ایک پیچیدہ نیٹ ورک کی جانب اشارہ کرتی ہیں جنہیں جرائم پیشہ افراد اپنے جرائم اور لاکھوں کے دھوکا دہی والے اثاثوں کو جائز بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور یہ نیٹ ورک جنوب مشرقی ایشیا سے افریقہ، یورپ اور شمالی امریکہ تک پھیلتا جا رہا ہے۔
جیسن ٹاور کا کہنا ہے، “ہم واقعی دیکھ رہے ہیں کہ یہ مجرمانہ نیٹ ورک زیادہ سے زیادہ طاقتور، بااثر، اور دنیا کے مختلف ممالک میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوششیں ابھی ان سے کافی دور ہیں۔” نوٹ: ڈی ڈبلیو کی دستاویزی فلم ‘Scam Factory: Behind Asia’s Cyber Slavery’ میں کے کے پارک کے بارے میں مزید معلومات حاصل کریں۔ ایرون، لوکاس اور لورا کے نام سکیورٹی مقاصد کے لیے تبدیل کیے گئے تھے۔ (لوئس سینڈرس، جولیا بائر، جولیٹ پنیدا، یوچین لی /ع آ / ک م)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
;