[]
حیدرآباد: چیف منسٹر ریونت ریڈی نے کہا کہ ریاست کے تمام دیہاتوں میں پینے کے پانی سربراہی کا نظم کرنا پنچایتوں کی ذمہ داری ہے اور آبی سربراہی سے محروم دیہاتوں کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے ہر اسمبلی حلقہ میں پینے کے پانی کی فراہمی کے لئے فوری ایک کروڑ روپے خصوصی فنڈزجاری کرنے،دریا کرشنا اور گوداوری کے علاوہ نئے پروجیکٹس کا استعمال، سڑکوں سے غیر مربوط 422 دیہاتوں کو پکّی سڑکوں سے جوڑنے، 3177 بستیوں کے لیے ٹارکول سڑکیں تعمیر کرنے کی ہدایت دی۔
آج چیف منسٹر اے ریونت ریڈی نے محکمہ پنچایت راج کے عہدیداروں کے ساتھ منعقد جائزہ اجلاس میں موسم گرما میں ریاست میں پینے کے پانی کے بحران پر قابو پانے کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی کرنے کا حکم دیا۔
چیف منسٹر نے مشورہ دیا کہ پوری ریاست کو صرف گوداوری اور کرشنا ندیوں سے پانی فراہم کرنے کے بجائے نئے آبی ذخائر کو پینے کے پانی کی ضروریات کی تکمیل کے لئے استعمال کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے اس مقصد کے لئے نئی تجاویز تیار کرنے کی ہدایت دی۔
انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے آس پاس کے دیہاتوں کو پینے کے پانی کی فراہمی میں آسانی ہوگی اور خرچ بھی کم ہوگا۔چیف منسٹر نے کہا کہ تمام نوتعمیر ذخائر آب جیسے ملنا ساگر، کونڈا پوچماں ساگر اور رنگانائک ساگر کو پینے کے پانی کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے۔
چیف منسٹر نے تجویز پیش کی کہ گاؤں میں پینے کے پانی کا انتظام سرپنچوں کو سونپا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں ہر گھر تک پانی پہنچانے کی ذمہ داری تفویض کی جانی چاہیے۔ اور اس تجویز پر عمل کرنے کے لئے ضروری طریقہ کار وضع کرنے کا مشورہ دیا۔
انہوں نے کہا کہ گاؤں میں پینے کے پانی، نلوں اور پائپ لائنوں کی دیکھ بھال کا کام الگ سے سرپنچوں کو سونپا جانا چاہیے۔ چیف منسٹر نے مزید کہا کہ مشن بھاگیرتھا، گھر گھر پانی کی فراہمی پر کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے جس پر عہدیداروں نے وضاحت کی کہ دیہاتوں میں پینے کے پانی کی فراہمی کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے۔
چیف منسٹر نے کہا کہ اگر اس مسئلہ پر احتساب نہیں کیا جاتا ہے تو دیہاتوں میں پینے کے پانی کا مسئلہ مزید شدت اختیار کرلے گا۔ انہوں نے کہا چونکہ سابق حکومت نے تلنگانہ کے ہر گھر کو نلوں کے ذریعہ پانی فراہم کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور یہ دعویٰ ان کے لئے فائدہ مند ہونے کے بجاے نقصاندہ ثابت ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے جل جیون مشن کے فنڈز، جو مرکز سے حاصل کئے جا سکتے تھے، حاصل نہیں ہوسکے۔انہوں نے عہدیداروں کو ان حقائق کو پوشیدہ رکھنے سے گریز کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
چیف منسٹر نے کہا کہ ریاست کے کئی حصوں میں لوگوں کو پینے کے پانی کے لیے اب بھی مسائل کا سامنا ہے، تانڈوں، دور دراز کی بستیوں اور جنگلات میں واقع گاؤں میں پانی نہیں مل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کئی دیہات کے لوگوں نے ان کی توجہ اس طرف دلائی تھی اور میں نے انہیں تیقن دیا تھا تھا کہ اگر وہ الیکشن میں کامیاب رہے تو پینے کے پانی کی پریشانی دور کردینگے۔
اجلاس میں چیف منسٹر نے عہدیداروں کو حکم دیا کہ وہ اس بات کا جامع سروے کریں کہ ریاست کے کن علاقوں اور کتنی بستیوں کو پینے کا پانی نہیں مل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرپنچوں کی میعاد اس ماہ کے آخر میں ختم ہو جائے گی اور حکام کو پینے کے پانی کی ذمہ داریوں کو بہتر طریقے سے نبھانا چاہیے۔
انہوں نے متعلقہ انجینئرز کو مشورہ دیا کہ وہ تمام دیہاتوں کا دورہ کریں اور پینے کے پانی کی مناسب سربراہی کے بغیر بستیوں کی فہرست تیار کریں جیسا فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جل جیون مشن کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے نئی تجاویز بنا کر مرکز کو روانہ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا موسم گرما میں پانی کی سربراہی کے مسائل سے بچنے کے لیے ابھی سے ضروری اقدامات کیے جانے چاہیے۔
چیف منسٹر نے ہر اسمبلی حلقہ کے لیے خصوصی ترقیاتی فنڈ کے تحت مختص 10کروڑ روپے میں سے پینے کے پانی کی ضروریات کی تکمیل کے لیے ایک کروڑ روپے خرچ کرنے کی ہدایت دی۔
چیف منسٹر نے ریاست میں سیلف ہیلپ سوسائٹیوں کو مضبوط کرنے اور انہیں مالی مدد فراہم کرنے کے پروگراموں پر توجہ مرکوز کرنے کی بھی ہدایت دی۔ سیلف ہیلپ سوسائٹیوں کی خواتین کو سرکاری اسکولوں، ہاسٹلوں کے طلبہ کو فراہم کی جانے والی یونیفارم کی سلائی کا کام سونپنے کی بھی تجویز دی۔
جائزہ اجلاس میں وزیر پنچایت راج وہ دیہی ترقیات سیتکا، وزیرعمارت وہ شوارع کومٹ ریڈی وینکٹ ریڈی، چیف سکریٹری شانتی کماری اور متعلقہ محکموں کے افسران نے شرکت کی۔