فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی

[]

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی پی ایچ ڈی

آقائے دوجہاں حضوراکرمﷺ نے فرمایاکہ کہ قیامت کے دن بدترین حال میں وہ شخص ہوگا جس نے دوسروں کی دنیا بنانے کی خاطر اپنی آخرت برباد کرڈالی۔ راوی ابوفسیلہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول مکرمؐ سے پوچھا کہ اپنے لوگوں سے محبت کرنا عصبیت ہے‘ آپؐ نے فرمایا نہیں بلکہ عصبیت یہ ہے کہ آدمی ظلم کے معاملہ میں اپنی قوم کا ساتھ دے۔ ہندوستان بھر میں اور خاص طورپر شہر فرخندہ حیدرآباد میں ایسے کئی واقعات ہمارے سامنے آرہے ہیں جسے دیکھ کر‘ جنہیں پڑھ کر اور جن کے بارے میں سن کر اتنا افسوس ہوتاہے کہ جسے الفاظ کا جامع نہیں پہنایا جاسکتا۔ حیدرآباد شہر کی ایک جامع مسجد میں کسی عہدہ کے حصول کے لئے بازاری انداز میں مارپیٹ کرنا اور واقعہ کو بدعنوان پولیس اسٹیشن سے رجوع کردینا نہ صرف ایمان کی بلکہ بنیادی انسانیت کی توہین ہے۔
تلنگانہ وقف بورڈ کے بارے میں کچھ کہتے ہوئے اس لئے شرم آتی ہے کیونکہ ہونٹ بھی اپنے ہی ہیں اور دانت بھی اپنے ہی۔ وہ کونسے عوامل ہیں کہ جس کے چلتے مسجد کی کمیٹیوں کے معیادی چناو نہیں ہوتے۔ جس کا جی چاہے وہ کسی بھی مسجد کا صدر بن جاتاہے مسجد کی تعمیر کے لئے جگہ دینے والی شخصیتوں کی خواہشوں‘ امنگوں اور ان کی نصیحتوں کو جو منشائے وقف کی تعریف میں آتا ہے‘ ردی کی ٹوکری میں ڈال دیاجارہاہے۔ اگر وقف بورڈ منشائے وقف کی قدر نہیں کرتاہے تو اسے برطرف کردیا جانا چاہئے۔ مسجد کی کئی کمیٹیوں کے صدر پچھلے 10 تا 15 برسوں سے عہدوں سے چمٹے بیٹھے ہیں۔ کیا یہاں پر یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایسا کیوں کررہے ہیں یا ایسا کیوں کیاجارہاہے؟ تو منظر صاف نظرآجائے گا یاتو اس میں اس شخص کا بے انتہا مالی فائدہ ہے یاپھر اس طرح کے انتظام کو جاری رکھنے میں وقف بورڈ کا مفاد پوشیدہ ہے۔ جمہوری نظام اسلام کی روح ہے۔ اگر ہم جمہوریت کو بالائے طاق رکھ کر مسجد کی کمیٹیوں کے بھی چناو نہیں کرواتے ہیں اور ہمارے جھگڑے پولیس اسٹیشنوں تک پہنچ جاتے ہیں تو غور فرمائیے کہ اس مشترکہ سماج میں ہماری کیا وقعت ہوگی؟ شہر میں ایسے کئی مساجد ہیں جس کے لئے صاحب خیر شخصیتیں رسید کے بغیر بڑے بڑے چندے عنایت کرتی ہیں اور یہی وہ چندے ہیں جو بدکردار لوگوں کو مسجد کی کمیٹیوں میں پیچھے کے دروازے سے داخل ہونے کے لئے بے چین کردیتی ہیں۔ یہ مخیرحضرات شاید حضور اکرمﷺ کی اس حدیث پر عمل کررہے ہیں جس میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ خیر کے کام چھپاکر کئے جائیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ حضورﷺ نے یہ بھی حکم دیاہے کہ خیر کے کام دکھاکر بھی کئے جائیں تاکہ دوسروں کو بھی نیک کام کرنے کی ترغیب مل سکے۔ اگر اس طرح کے چندے چھپاکر دیئے جاتے ہیں جن کا کوئی ریکارڈ نہ ہوتا ہوتو وہاں پر کمزور کردار کے لوگ یقیناً اس رقم میں تغلب کریںگے۔ ملک بھر کے تمام وقف بورڈس میں بھی صاف وپاک شخصیتوں کو لایاجائے اور تمام بورڈس کو یہ ہدایت دی جائے کہ وہ اوقاف میں درج تمام مسجدوں کی کمیٹیوں کے ہرسال پابندی کے ساتھ چناؤ کروائیں۔ کسی کو بھی دوسری معیاد کے لئے صدر نہ بنایاجائے۔ ایسا کوئی شخص جو باربار یہ اصرار کرتاہو کہ دوسری بار بھی اسی کو صدر بنایاجائے تو اسے مسجد کی کمیٹی سے ہی خارج کردیاجائے۔ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ دونوں شہروں کی بے شمار عبادت گاہوں کے اطراف‘ جن میں مسجد مندر دونوں ہی شامل ہیں‘ بے ہنگم تجارتی مراکز ابھر آئے ہیں۔ یہ دکاندار فٹ پاتھوں پر تو قابض ہوہی چکے ہیں اب وہ سڑکوں کو بھی نہیں بخش رہے ہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر ہرکوئی یہ محسوس کرنے لگاہے کہ ٹریفک پولیس کا وجود اس معاملہ میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہاں انہیں دو پہیے والی گاڑیوں کے خلاف چالان کاٹتے ہوئے ضرور مصروف دیکھاگیاہے۔
نماز اور مسجدوں کے بارے میں کئی سال پہلے علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا کہ
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحبِ اوصاف حجازی نہ رہے
قلب میں سوز نہیں‘ روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغام محمدؐ کا تمہیں پاس نہیں
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
ہمارے بزرگان دین کی درگاہوں سے متصل ایسے کئی قبرستان ہیں جہاں پر قبروں کے لئے جگہ کا باضابطہ آکشن کیاجارہاہے۔ یہ آکشن اس لئے ہورہا ہے کیونکہ ہرکوئی ایک خاص درگاہ میں دفن ہونے کی خواہش کررہاہے۔ علامہ اقبال نے جواب شکوہ میں فرمایاتھاکہ
ہونے کو نام جو قبروں کی تجارت کرکے
کیا نہ بیچوگے جو مل جائیں صنم پتھرکے؟
تجارت کا ایک اصول ہے کہ جب مال کم ہو اور ڈیمانڈ زیادہ ہوتو مہنگائی لازم ہے۔ بس قبروں کی جگہ کے لئے بھی ایسا ہی کچھ ہورہاہے۔ وہ لوگ جو کسی خاص درگاہ کے احاطہ میں دفن ہوناچاہتے ہیں وہ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ
آخر گِل اپنی صرفِ درمیکدہ ہوئی
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
۰۰۰٭٭٭۰۰۰



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *