شیعہ مسنگ پرسنز کے معاملہ پر قانونی اداروں کی خاموشی متاثرین کی بے گناہی کے امکانات کو مضبوط کرتی ہے

[]

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امت واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے عشرہ محرم الحرام 1445 ھجری کی مجلس عزا میں شیعہ مسنگ پرسنز کے حوالہ سے گفتگو کی اور متاثرہ خانوادوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ انہوں نے کہا کہ داعش کے پرچم کا ہدف شرک کے نوکروں کو توحید کا لباس پہنا کر حقیقی دین کے پرچم کے مقابلہ میں کھڑا کرنا تھا لیکن ہم سب نے اس کے نتائج ملاحظہ کیے۔ اسلام کا حقیقی چہرہ کربلائے حسین سے ملتا ہے جہاں جرأت, عقل, استدلال, معنویت اور انسان کی فکری و روحانی ضرورتیں میسر ہیں۔ تمام دنیا نے مل کر اسلام کے اس حقیقی چہرہ کو مسخ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ مغربی دنیا نے اس ہدف کے حصول کے لئے تقریبا سات ہزار ٹریلین ڈالرز خرچ کیے لیکن انہیں داعش کی تاریخ ساز و ذلت آمیز شکست اور دہشت گردوں کی لاشیں اٹھانے کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوا۔ یہ شکست اللہ کی طرف سے نصرت اور پیغام تھا۔ 

علامہ امین شہیدی نے کہا کہ پاکستان سے بھی کچھ لوگ داعش کے فتنہ کو ختم کرنے کے لئے گئے لیکن آج تک ان کے خانوادے زیر عتاب ہیں۔ بظاہر یہ قبول تو کیا جاتا ہے کہ داعش دین, انسانیت و جمہوریت دشمن اور دہشت گرد تنظیم ہے لیکن جب اسی شدت پسند تنظیم سے مقابلہ کے لئے یہاں سے کوئی جوان جاتا ہے تو اس کو اٹھا کر کئی سالوں تک غائب کر دیا جاتا ہے۔ ریاستی اداروں کے قول و عمل میں واضح تضاد ہے۔ صرف پاکستان سے نہیں بلکہ یورپ, لبنان, ایران, افغانستان اور یمن کے باشندوں نے بھی داعش کا مقابلہ کیا اور اسے شکست دی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم کو شکست دینے والوں کو ہیرو کے طور پر تسلیم کیا جاتا لیکن آج بھی اس کے متاثرین شیعہ مسنگ پرسنز کی صورت میں پاکستان میں موجود ہیں۔ ہمارے قانونی اداروں نے ان کو بغیر کسی جرم کے اٹھایا اور اب تک وہ لوگ اداروں کی قید میں ہیں۔ جب اداروں سے سوال کیا جائے کہ کیا شیعہ مسنگ پرسنز کسی ریاست مخالف اقدام میں ملوث رہے ہیں, کیا انہوں نے کوئی قانون شکنی کی ہے یا پھر داعش کو قتل کرنا جرم ہے تو جوابا ادارے خاموشی اختیار کیے رہتے ہیں۔ اس وقت بھی کراچی میں شیعہ مسنگ پرسنز کے خانوادے علامتی بھوک ہڑتال میں بیٹھے ہیں جن کا مطالبہ یہ ہے کہ ان کے گمشدہ افراد کو عدالت میں پیش اور واپس کیا جائے۔ ان میں سے چند مسنگ پرسنز کے تو والدین بھی ان کی واپسی کا انتظار کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن اس غیر عادلانہ نظام میں ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *